قوم جس دوراہے پر کھڑی ہے وہ نہایت جذباتی اور نازک ہے، قیادت کی حقیقت اور اصلیت کا امتحان ہے۔ کون عقلمند ہے اور کون جذباتی اپنے مفادات کی جنگ کو جذبات کے پردے میں رکھ کر جیتنا چاہتا ہے۔
ساری دنیا پر عیاں ہے کہ بھارت کے رہنما اور اس کے حکمران ہمیشہ ہی اپنے بغض باطنی کی تسکین کیلئے پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے سفارتی محاذوں پر سرگرم رہتے ہیں اور مقامی طور پر اپنے جنونی ہندو عوام کو نفرت کا خاموش سبق دیتے رہتے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی اور معاشی قتل کیلئے منظم حکومتی و سیاسی اقدامات کے نفاذ کو بھارتی سیاسی ذہنیت کا مستقل حصہ قرار دیا گیا ہے۔ بھارتی حکمرانوں اور تمام سیاسی قائدین کے نزدیک بھارت ماتا پر بسنے والے مسلمان بہرحال دھرتی ماتا کے سینے کو ناپک ہی کر رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان ان کے نزدیک دھرتی ماتا کی تقسیم ہے اور یہ ماں کے ٹکڑے برداشت نہیں کر سکتے۔ بھارتی مسلمان ان کے نزدیک ملیچھ ہیں اور پاکستان ان کی نظر میں ماتا کا قاتل ہے۔ اس لئے بھارتی مسلمانوں سے نفرت اور پاکستان کی تباہ کاری ان کے دھرم کا اٹوٹ انگ ہے۔
1947ء سے لے کر آج کی تازہ ترین صورتحال تک کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی کہ بھارت سقوط حیدر آباد، قبضہ کشمیر سے لے کر بنگلہ دیش تک اور پھر سیاچین تک کی کہانی میں ہر جگہ نفرت بھرا جارح نظر آتا ہے۔ انسانی قدروں کا دشمن، سیکولرازم کا جھوٹا پرچار کر کے بھارت کا آئے دن مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز ظالمانہ معاشرتی تشدد اور معاشی ظلم اس گرگانہ صفت ملک کی بدنیتی کا مظہر ہے۔
پاکستان پر تازہ ترین دھمکی آمیز جارحیت اور پھر مختلف سیکٹرز پر بے سبب اشتعال انگیز چھوٹی چھوٹی جنگی جارحیت اس کے ناپاک ارادوں کا کھلا عملی ثبوت ہے۔
پاکستانی قوم اور عوام اپنی آزادی اور نظریہ آزادی کو اپنے ایمان سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ اسی لئے عوام الناس نے اپنے حکمرانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنے سلے ہوئے لبوں کو جنبش دیں اور قومی اتحاد کی صورت پیدا کریں۔ ہمارے حکمرانوں نے روایتی اقدامات کا سہارا لیتے ہوئے اپنی سیاسی ساکھ قائم رکھنے کیلئے جو انداز اختیار کیا ہے وہ ناقابل تشفی ہے۔ اندرون ملک بھارت کی خفیہ جاسوسی قوتوں نے جو حالات پیدا کئے ہیں ان کے توڑ کیلئے متفقہ سیاسی اور حقیقی انتظامی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔
ہمیں اس امر پر بھی تبصرہ کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ قومی اتحاد اجتماع میں کن شخصیات کو کس میرٹ پر دعوت دی گئی تھی یا بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو جناب وزیراعظم نے صحیح طور پر درخور اعتناء کیوں نہیں سمجھا۔
ہمارا نظریہ قومی تو ہے کہ حکومتی سطح پر بھارت کی ہرزہ سرائی کا جواب دینے کیلئے جناب وزیراعظم کو ازخود اس حقیقی جہاد کی قیادت کرنا چاہیے۔ جناب وزیراعظم کی اقوام متحدہ کی تقریر اور کشمیری قبضہ پر بیانات اگرچہ ان کی منصبی ذمہ داری ہے لیکن ان کے داخلی سیاسی معاملات اور اپوزیشن سے ان کا رویہ داخلی عدم استحکام کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ سرکاری اور منصبی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے چرچے کیلئے سرکاری خزانے سے اشتہارات چھپوا کر اپنی تشہیر کرنا اپنے سیاسی اور گروہی قیادت کے قد کو بڑھانے کا غیرمناسب رویئے کو وطن دوستی نہیں کہا جا سکتا۔
حکومت کی ترجیحات میں حکمرانوں کے ذاتی سیاسی مفادات کی نگرانی سب سے اہم نظر آتی ہے۔ دو روز قبل ملکی سلامتی کے حوالے سے اعلیٰ ترین ذمہ داران کے اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کی کارروائی اور نتائج پر گفتگو کے دوران حکومتی اداروں کی کارروائی اور حکومتی طرزِعمل کی کمزوریاں کھل کر سامنے آگئیں۔
دہشت گرد تنظیمیں اور دہشت گرد پاکستان دشمن سیاسی لوگ ابھی تک اپنی ضد پر قائم ہیں۔ عساکر پاکستان اگرچہ داخلی محاذ پر وطن دشمن بھارت نواز گروہوں پر عرصہ حیات تنگ کر رہی ہیں لیکن حکومتی سطح پر دہشت گردوں سے مربوط افراد کی پذیرائی تاحال جاری ہے۔ یہ دشمن کی بین الاقوامی کافرانہ سازش ہے کہ پاک فوج کو داخلی محاذ پر دہشت گردوں سے الجھا کر رکھا جائے۔ بین الاقوامی خفیہ سازش کے جال میں بہت سے ایسے عمائدین بھی شامل ہیں جن کا تعلق مضبوط عوامی و سیاسی گروہوں سے ثابت ہے اور یہ عمائدین پاکستانی حکومت کی چھتری تلے اپنے ایام حیات بہت ہی معززانہ طریقے پر گزار رہے ہیں۔
حکومت عوام اور قوم کے جذبات و صبر کا امتحان نہ لے ورنہ یہ خاموش پکتا ہوا لاوا کسی وقت بھی حکومت پر وبال بن کر ابل پڑے گا۔ ہمارے حکمران بیرونی آقائوں کی خوشنودی کے بدلے میں اپنے اقتدار کی طوالت کے خواہشمند ہوتے ہیں اور Do More کی تکمیل کیلئے اپنے آپ کو وطن کے وسائل سمیت ایستادہ رکھتے ہیں اور قومی مفادات کو اپنے ذاتی مفادات کے زیرنگیں رکھتے ہیں۔
حکمران پوری طرح سے قومی مفادات کو سمجھیں اور داخلی محاذ پر قومی اتحاد کی حقیقی فضا پیدا کریں۔ وطن دشمن سیاسی و مذہبی افراد و جماعتوں کی خفیہ اور عملی سرپرستی فوری طور پر ترک کر دیں اور بھارت کی پاکستان دشمنی کا مقابلہ کرنے کیلئے روایتی بیانات، عارضی اقدامات کا سہارا لے کر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا اعلان قوم سے دھوکہ ہے اور یہ دھوکہ بہت جلد اپنی قلعی کھول دے گا۔
داخلی محاذ پر قومی اتحاد کی حقیقی قوت بحال کرنے کیلئے مفاد پرست عناصر اور قوم دشمن سیاستدانوں اور سیاسی گروہوں پر سے ہاتھ اٹھانا نہایت ضروری ہے اور قومی مفادات کی عملی بحالی بھی بہت ضروری ہے جس کیلئے مالی بدعنوانی اور خفیہ زراندوزی کے تمام ذرائع پر عملی پابندی لگانا بھی ضروری ہے۔ ملحقین اور لواحقین کی ناجائز دولت کو قومی ملکیت اور قومی خزانے کا حصہ بنانا بھی راست اور مثبت اقدامات میں شمار کئے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے کسی بھی انداز اور طریقے پر چشم پوشی یا مصلحت کوشی کو یکسر طور پر ختم کرنا ہی ہمارے لئے نئے راستوں کو اختیار کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجائے دیتے ہیں
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024