افغان طالبان نے گزشتہ پیر کو اپنے ملک کے دفاعی لحاظ سے اہم شہر قندوز پر قبضہ کر لیا۔ شہر میں تعینات امریکی تربیت یافتہ افغان فوجی اور گورنر سمیت تقریباً تمام حکام فرار ہو گئے۔ طالبان نے اپنے ساتھیوں سمیت سینکڑوں قیدیوں کو جیل سے رہا کرالیا۔ انہوں نے گورنر ہائوس جیل اور شہر کے مرکزی چوک پرامن کی علامت کے طور پر اپنے سفید پرچم لہرا دیئے۔ پولیس اور فوج کی چھوڑی ہوئی گاڑیوں اور اسلحے پر بھی ان کا قبضہ ہو گیا۔ افغان حکومت نے شہر کے بڑے حصے پر طالبان کے قبضے کا اعتراف کرنے کے باوجود دعوی کیا کہ سرکاری فوجی کچھ علاقوں میں ان کا مقابلہ کر رہے ہیں اور وہ تازہ کمک کے انتظار میں ہیں۔ افغان حکومت کے ذرائع نے لڑائی میں بیس طالبان کی ہلاکت کا دعوی کیا ہے۔ لیکن ہلاک شدہ سرکاری فوجیوں کی تعداد نہیں بتائی۔ دریں اثناء گزشتہ روز امریکی جنگی طیاروں نے قندوز بین الاقوامی ہسپتال پر بمباری کر دی جس کے نتیجے میں عملے کے 9 ارکان سمیت 20 افراد ہلاک اور 37 زخمی ہو گئے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق قندوز میں طالبان کا قبضہ چھڑوانے کیلئے امریکی طیاروں نے فضائی حملہ کیا۔ ساتویں صدی عیسوی میں دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ کے عہد حکومت میں مشرف بہ اسلام ہونیوالا افغانستان آج تک مسلم اکثریت کا ملک ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف نظریات اور خیالات کی حکومتیں آتی جاتی رہیں۔ لیکن عوامی سطح پر اس کا مسلم تشخص ہمیشہ باقی رہا۔ راسخ العقیدہ مسلمانوں کے اس ملک پر حالیہ تاریخ میں پہلے سوویت یونین نے قبضہ کرنے کی کوشش کی تو اسکے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ اسکے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر کے اور یہاں قائم طالبان کی حکومت ختم کر کے اسکے وسائل پر قبضے کاخواب دیکھا تو وہ بھی بالآخر چکنا چور ہو گیا۔ مغربی ممالک اور نیٹو فوجیوں کی بھرپور مدد کے باوجود امریکا کو افغانستان سے بہ ہزار ذلت و رسوائی رخصت ہونا پڑا۔ اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کے علاوہ امریکہ نے اپنی معیشت کا بھی بیڑا غرق کر دیا تو خود امریکیوں نے افغان جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ قندوز شہرپر طالبان کا قبضہ امریکا اور بھارت کی کٹھ پتلی افغان حکومت کیلئے ایک واضح اشارہ ہے کہ غیور افغان باشندے کسی غیر ملکی طاقت یا اسکے ایجنٹوں کا وجود برداشت نہیں کر سکتے۔
افغان صدر کی جانب سے یہ الزامات اور ان کی زبان ایسی ہے جیسے بھارت کا کوئی صدر یا حکمران بول رہا ہو۔ انہوں نے یہ کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات برادرانہ نہیں دو ریاستوں کے ہیں لاکھوں افغان کی چار دہائیوں سے میزبانی کرنے والے ملک کی قربانیوں اور اس ملک کے عوام کے احسانوںکو فراموش کر دیا۔
جب تک روسی افواج افغانستان میں رہیں پاکستان غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کا مطالبہ کرتا رہا۔ اس طویل جنگ میں پاکستان نے بڑا نقصان برداشت کیا اور صرف بردرانہ جذبے کے تحت اب افغان صدر نے برادرانہ جذبات کو درمیان سے ہٹا دیا ہے تو کیا پاک فضائیہ کے کیمپ پر حملے کے منصوبہ سازوں کے افغانستان میں موجود ہونے کا راز فاش ہونے پر دیا گیا ہے۔ کیا آرمی پبلک سکول پر حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں ہونے کا ثبوت ملنے پر وہ چراغ پا ہیں اگر ایسا ہی ہے تو کیا پاکستان بھی افغان عوام سے اپنے تعلقات کو بالائے طاق رکھ دے اور افغانستان میں منصوبہ بندی کرنیوالوں کیخلاف براہ راست کوئی کارروائی کر ڈالے؟ افغان صدر نے پاکستان پر دہرے موقف کا الزام لگایا ہے لیکن حالیہ کارروائیوں کے تناظر میں تو افغان حکومت کا موقف دہرا ثابت ہو رہا ہے۔ جہاں تک طالبان کی پناہ گاہیں پاکستان میں موجود ہونے کا الزام ہے تو جس وقت وہ یہ الزام لگا رہے تھے قندوز میں طالبان کا قبضہ انکے اس الزام کا منہ چڑا رہا تھا کہ طالبان کے ٹھکانے پاکستان میں ہیں کیا یہ طالبان پاکستان میں موجود اپنے ٹھکانوں سے نکل کر قندوز تک کا طویل سفر کر کے وہاں پہنچے اور سفر پر قبضہ کر لیا۔ افغان حکومت کی رٹ کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کا انداز ہو رہا ہے کہ طالبان جب چاہتے ہیں کسی بھی جیل کو توڑ کر اپنے آدمیوں کو رہا کرا لیتے ہیں۔ قندوز جیسے شہر پر چند گھنٹوں میں ان کا کنٹرول ہو جاتا ہے ویسے بھی 30 فیصد افغانستان تو خود افغان حکومت طالبان کو دینے کی تجاویز پیش کر چکی ہے گویا معاملات اس سے زیادہ طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔
اشرف غنی تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا بھائی لگتا ہے۔ دریں اثناء آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بجا طور پر اس طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ افغانستان میں داخلی عدم استحکام کے ہر واقعے سے پاکستان کی تشویش میںاضافہ فطری امر ہے کیونکہ اس کے اثرات سے پاکستان متاثر ہوتا ہے۔ قندوز کے واقعے کے بعد پاکستان کو پھر افغانستان کی سلامتی بارے تشویش ہے چونکہ افغانستان کے طاقت کے استعمال کا فارمولے کی ناکامی کے تجربے سے دنیا حال ہی میں گزر چکی ہے۔افغان حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ اس امر کو تسلیم کر لیں کہ فریقین کے درمیان مصالحتی عمل کی بحالی ہی بہتر راستہ ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024