آجکل کے دور میں یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جہاں دنیا کے کمزور ممالک میں حکومتیں بننے اور گرانے میں مخصوص قوتیں در پردہ اپنا کھیل کھیلتی ہیں وہیں پر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہں کہ دنیا کے وہ بیشتر ممالک جو جمہوری روایات کے سرخیل نظر آتے ہیں وہاں بھی حکومت سازی میں یہی مخصوص طاقتیں اپنا رنگ دکھاتی ہیں اور مختلف طریقوں سے عوامی رائے عامہ کو متاثر کرتی ہیں اسکے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ہر قسم کے شک و شْبہ سے بالاتر ہے کہ حکومتی پالیسیاں بھی انہی قوتوں کی منشاء کیمطابق بنتی اور چلتی ہیں۔ ان قوتوں کی اگردرجہ بندی کی جائے تو کارپوریٹ سیکٹر کا شمار ان طاقتوں کی صفِ اوّل میں آتا ہے گو کہ امریکہ برطانیہ اور یورپ اس حقیقت کی واضع مثالیں ہیں لیکن اب تو چین جیسے ملک جو سوشلزم کے علمبردار مانے جاتے تھے اس میں بھی کم وبیش یہی طبقہ حکومتی پالیسیوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ ان حقیقتوں کے ساتھ یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کسی بھی ملک کا استحکام اسکی معاشی ترقی سے جڑا ہوتا ہے اور کارپوریٹ سیکٹر ہی اس ملک کی معاشی ترقی میں بنیادی اور کلیدی کردار کا حامل ہوتا ہے۔
اس تاریخی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 1947ْْء میں پاکستان کے معرض وجود میں آ نے کے بعد دستیاب وسائل کی کمی اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود اگر دیکھا جائے تو1965ء تک پاکستان کا جی ڈی پی گروتھ ریٹ 7.9 فیصد کی حدوں کو چھونے لگا تھا کہ 1965ء میں پاکستانی سرحدوں پر بھارتی جارحیت پاکستان کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت کیلئے زہر قاتل ثابت ہوئی ابھی پاکستان اس جارحیت کے اثرات سے سنبھل نہیں پایا تھا کہ پہلے ایوب خان کیخلاف سیاسی بے چینی اور احتجاجی تحریک نے پاکستانی معیشت کی تباہی میں جلتی پر تیل کا کام کیا اور پھر 1971ء کے الیکشن کے نتائج کے بعد مشرقی پاکستان میں پیدا ہونیوالی سورش اور بھارت کی طرف سے پاکستان پر اسکی فوجی یلغار نے رہی سہی کسر پوری کر دی جس سے نہ صرف پاکستان کی معیشت کی کمر ٹوٹی بلکہ اس جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کی سالمیت بھی برقرار نہ رہ سکی اور ملک دو ٹکڑے ہو گیا اتنے بڑے سانحے کے بعد معیشت کے سنبھلنے کی توقع کسی معجزے سے کم نہ تھی 1972ء سے لیکر 1977ء کے درمیانی عرصے میں جس کثیر مقدار میں خلیجی ممالک سے غیر ملکی زرِ مبادلہ پاکستانی افرادی قوت کی وجہ سے ملک میں آیا اْس تناسب سے پاکستانی معیشت کی اْٹھان دیکھنے کو نہیں ملی جس کی بنیادی وجہ ایک طرف بھٹو حکومت اور کارپوریٹ سیکٹر میں وہ خلیج گردانی جاتی ہے جو صنعتی اداروں اور کارخانوں کو قومیانے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی دوسری طرف پاکستان کی بدقسمتی کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب سردار داؤد کی طرف سے افغانستان میں ظاہر شاہ کا تختہ الٹنے کے بعد بدامنی کا دور شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے دہشتگردی کے روپ میں پورے خطے کیلئے ایک عذاب کی صورت اختیار کر گیا۔
بھارتی حکومت اس وقت جس جنگی جنون میں مبتلا دکھائی دیتی ہے اسکی ایک جھلک 2002ء میں بھی دیکھنے کو ملی تھی کہنے والے کہتے ہیں کہ اْس وقت جب بھارت کی حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ پر تْلی ہوئی تھی وہاں کے کارپوریٹ سیکٹر نے اپنی حکومت پر دبائو ڈال کر اْسے کسی غلطی کرنے سے روکا تھا اْنکے مطابق ایسی کسی غلطی کے نتیجے میں بھارتی معیشت پچاس سال پیچھے چلی جانی تھی۔ اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ امریکہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی طرح بھارت میں بھی انکا کارپوریٹ سیکٹر حکومتیں چلانے اور پالیسیاں بنانے میں پیش پیش ہے اس وقت یہ خطہ دہشت گردی اور بدامنی کے جس دور سے گزر رہا ہے حالات ایک بار پھر بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر اور انکی INTELLIGENCIA سے اس بات کے متقاضی ہیں کہ وہ اپنے ارباب حکومت کو سمجھائیں کہ پاکستانی معیشت تو افغان جنگ اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے کرتے پہلے ہی سے ہچکولے لے رہی ہے لیکن بھارت کی طرف سے کوئی ایسی غلطی اْسکی معیشت کو پچاس سال نہیں سو سال پیچھے لے جائیگی اسکے ساتھ انہیں یہ حقیقت بھی سمجھنی چاہیے کہ دہشت گردی چھوت کی بیماری کی طرح پھیلتی ہے اسے سرحدیں مقید نہیں کر سکتیں اسکی زندہ مثال آپکی آنکھوں کے سامنے ہے کس طرح افغانستان میں پیدا دہشتگری کے اس ناسور نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انار کی اور دہشت گردی کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتیں یہ اپنے اردگرد کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے کر رہتی ہیں اسکی واضح مثال 1977ء میں دیکھنے کو ملتی ہے جب سردار داؤد کی وجہ سے افغانستان میں سیاسی ہلچل مچی تو اْسی سال پاکستان میں بھٹو کے خلاف سیاسی تحریک چل پڑی بات یہیں نہیں رکی اس لہر نے ایک طرف ہندوستان میں اندرا گاندھی کو ایمرجنسی لگانے پر مجبور کیا تو دوسری طرف اس سیاسی سورش کی وجہ سے شاہ ایران کو بھی دیس نکالا ملا اور اب اسکی تازہ مثال مشرق وسطی میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ سمجھدار وہ ہوتا ہے جو تاریخ سے سبق سیکھتا ہے حالات بھارت سے اس بات کا تقاضا کر رہے ہیں کہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس دہشتگردی کے ناسور کو ملکر جڑ سے اکھڑنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ کراچی بلوچستان اور فاٹا میں ایسے عناصر کی مدد کی جائے جو دہشتگردی کے حامی ہیں خاص کر اْن حالات میں جب بھارت خود اپنے اکثر صوبوں میں علیحدگی پسند تحریکوں کا سامنا کر رہا ہے اور اس سلسلے میں وہ اپنے ایک وزیراعظم کی قربانی دے چکا ہے۔ اب یہ وہاں کے کارپوریٹ سیکٹر کو دیکھنا ہوگا کہ اگر وہ بھارتی معیشت کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر یقیناً انہیں اپنے ارباب اختیار کو جنگی جنون کی سوچ کو چھوڑ کر دہشت گردوں کی معاونت سے اجتناب کا مشورہ دینا ہو گا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024