میں تین اکتوبر کی صبح ٹی وی پر اپنا دل پسند ٹی وی پروگرام دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک دل فگار خبر نشر ہونے لگی۔اس غم انگیز خبر میں بتایا جارہا تھا کہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے فرزند اور اقبالیات کے منفرد ماہر جسٹس(ر)جاوید اقبال وفات پاگئے ہیں۔میں نے فوراًخبروں والا چینل تبدیل کیا تو نصف سکرین پر جناب جاوید اقبال کی تصویر اور نصف سکرین پر انتقال کی خبر نمایاں تھی۔یہ خبر پڑھ کر دل دھک دھک کرنے لگا اور آنکھوں میں نمی آگئی اور اس نمی میں ان کی یادیں جھلملانے لگیں۔انہوں نے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔اور چیف جسٹس کے عہدہ جلیلہ تک پہنچے۔علامہ اقبال کی وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً 14سال تھی۔ظاہر ہے کہ اس عمر میں اقبال کے فلسفہ حیات وممات اور تصور خودی کا ادراک ممکن نہیں تھا لیکن فرزند اقبال آخر فرزند اقبال تھا۔انہوں نے بلوغت کے بعد فلسفہ اقبال کا اس گیرائی اور گہرائی سے مطالعہ کیا کہ فکر اقبال کے ایک ممتاز شارح کا مقام حاصل کر لیا۔اقبال کی زندگی اور مفکرانہ شاعری پر ان کی لکھی ہوئی کتب کو معتبر حوالہ جاتی کتب کا درجہ حاصل ہو گیا۔
میرے دل میں ہمیشہ یہ حسرت رہی کہ کاش میں اقبال کے زمانہ حیات میں پیدا ہوتا اور ان کا دیدار مجھے نصیب ہوتا۔یہی حسرت تھی جس نے مجھے جاوید اقبال کا گرویدہ بنا دیا۔مجھے ان میں علامہ اقبال کی تصویر جھلکتی نظر آتی تھی۔جب میں نے وکالت کا امتحان پاس کیا تو جاوید اقبال ہائی کورٹ میں بطور جج خدمات سرانجام دے رہے تھے،ان کی عدالت میں میرا کوئی مقدمہ کبھی نہیں لگا لیکن میں ان کا دیدار کرنے کیلئے کمرہ عدالت میں جاکر بیٹھا رہتا تھا۔تقریباًبیس سال قبل جب میں نے نوائے وقت میں قطعہ نگاری شروع کی تو مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ جسٹس جاوید اقبال اورمجید نظامی دونوں ایک دوسرے کے قدر دان ہیں۔پھر تحریک پاکستان کے حوالے سے بہت سی تقاریب میں جسٹس صاحب کا دیداربھی ہوتا رہا۔ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر ہر سال انسانی حقوق کے حوالے سے تقریب منعقد کرتے ہیں اور اس میں چاروں صوبوں سے انسانی حقوق پر نمایاں کارکردگی کے حوالے سے چار اصحاب کو ایوارڈ کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔یہ انتخاب ایک کمیٹی کرتی ہے۔تین چار بار مجھے بھی اس کمیٹی میں شامل کیا گیا،جسٹس جاوید اقبال اس کمیٹی کے مستقل رکن تھے۔یہاں ایک دو مرتبہ ان سے گفتگو کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔جب انہیں بتایا گیا کہ میں نوائے وقت میںروزانہ قطعہ نگاری کرتا ہوں تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ قطعہ تو میں پڑھتا ہوں لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ یہ قطعہ کاریاں ایک وکیل کر رہا ہے۔
اقبال پیشہ ور وکیل تھے لیکن اقبالیات کے حوالے سے شائع ہونے والی سینکڑوں کتب میں انکی بطوروکیل کارکردگی کی تفصیل نہیں ملتی۔اور کچھ ہے بھی تو وہ بار میں ان کی لطیفہ بازیتک محدود ہے۔میں نے اس حوالے سے تحقیق شروع کی اور1908ء سے 1934ء تک کا ریکارڈ کھنگالنے کے بعد ایسے 110رپورٹڈ کیس ڈھونڈ نکالے جن میں اقبال بطور وکیل پیش ہوئے تھے ۔اقبال چار سال تک ایک قانونی رسالے کے ایڈیٹروں میں بھی شامل رہے۔مقدمات میں بیرسٹر اقبال کی کامیابی کی شرح 55فیصد تھی۔’’قانون دان اقبال‘‘کے زیر عنوان اس کتاب کا مسوّدہ لے کر میں ایوان اقبال کے سربراہ سہیل عمر صاحب کے پاس پہنچااور کتاب کا پیش لفظ لکھنے کی استدعاکی۔انہوں نے مسوّدہ دیکھا توکہا کہ یہ حیات اقبال کے قانونی زاویئے پر پہلی تحقیق ہے اس کا دیباچہ تو جسٹس جاوید اقبال کو تحریر کرنا چاہئے ۔میں نے عرض کیا کہ کتاب اشاعت کے مرحلے میں ہے۔ میرے پاس صرف سات دن کا وقت ہے۔ سنا ہے کہ جاوید اقبال صاحب پیش لفظ وغیرہ لکھنے سے اجتناب کرتے ہیں تو انہوں نے کمال مہربانی سے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مسوّدہ میرے پاس چھوڑ جائو پورے سات دن بعد فرزندِ اقبال کا لکھا ہوا پیش لفظ تمہیں مل جائے گا۔ اور پھر وہی ہوا۔ ساتویں دن جاوید اقبال صاحب کا لکھا ہوا دستخط شدہ پیش لفظ مجھے مل گیا۔ پھر جناب سہیل عمر صاحب کے توسط سے شائع شدہ کتاب میں نے انہیں بجھوا دی۔ مجید نظامی مرحوم کی رسم قل کی تقریب میں جسٹس جاوید اقبال ایک کرسی پر تشریف فرما تھے اور ان کے چاہنے والے ان سے مسلسل مصافحہ کرتے چلے جا رہے تھے۔ میں نے موقعہ غنیمت جانا اور ان سے مصافحہ کیا۔ ضعیفی کے سبب وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے لوگوں سے ہاتھ ملا رہے تھے۔ ہاتھ ملاتے ہوئے میں نے کہا کہ جناب قانون دان اقبال میری تصنیف ہے۔ یہ سنتے ہی وہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھے سینے سے لگا کر کہنے لگے کہ اقبال کو ایک منفرد قانون دان ثابت کرنے کا جو تحقیقی کارنامہ تم نے سرانجام دیا ہے اس نے لا علمی کے اندھیرے میں چھپے حیات اقبال کے ایک گوشے کو منور کر دیا ہے۔
فرزند اقبال کا جنازہ اٹھایا جا رہا تھا تو میں اور میرے ساتھ پروفیسر نصیر چوہدری بڑی کاوش سے جنازہ تک پہنچے اور جس پلنگ پر جاوید اقبال ابدی نیند سو رہے تھے اسے سہارا دے کر ایمبولنس میں رکھوایا۔ جب ہم نمازِ جنازہ پڑھ چکے تو نصیر چوہدری نے دکھ بھری آواز سے کہا مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں نے علامہ اقبال کی نمازہ جنازہ ادا کی ہے۔ میں نے جواباً کہا۔ علامہ اقبال کی طرح جاوید اقبال بھی زندہ رہیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ایسا خیال ذہن میں آیا جو شاید کسی کے ذہن میں نہیں آیا تھا۔ میں نے سوچا کاش فرزند اقبال کو بیگم پورہ قبرستان کے بجائے علامہ اقبال میوزیم کے سبزہ زار میں دفن کیا جاتا تو جاوید منزل کا اصل مالک ہمیشہ کے لیے جاوید منزل اور اقبال میوزیم کا حصہ بن جاتا لیکن بقولِ اقبال …ع
کون سنتا ہے فغانِ درویش
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024