کہانی کا ایک دلچسپ موڑ ابھی باقی ہے۔ اس واقعہ کے چند دن بعد ایئر فورس کے سربراہ ایئرمارشل اصغر خاں نے ایوب خاں سے پوچھا کہ سکندر مرزا سے استعفیٰ لے کر خود اقتدار سنبھالنے کا فیصلہ آ پ نے کس لمحے میں کیا تھا۔ دیکھو اصغر خاں تمہیں تو سب معلوم ہے کہ وہ میرے خلاف سازشیں کر رہا تھا۔ دونوں فون کالوں کا تو تمہیں خود بھی علم ہے۔ ہم دونوں کے درمیان ایک شدید قسم کا کھچائو تو تھا مگر حتمی فیصلہ میں نے گذشتہ دنوں مشرقی پاکستان میں فوج کے ایک بڑے کھانے میں کیا۔ ایوب خاں نے مسکرا کر کہا کہ اسی بڑے کھانے کے دوران ایک فوجی آفیسران کے قریب سے گذرا اور کہا کہ سر آپ نے کوئی خبر سنی ہے۔ یہ کہہ کر وہ آفیسر تو کہیں ادھر ادھر چلا گیا مگر مجھے یقین ہو گیا کہ سکندر مرزا نے اپنا وار کردیا ہے اور ان کی چھٹی کروا دی ہے۔ ایوب خاں نے بتایا کہ وہ چند لمحے ان پر بڑے گراں گزرے۔ کھانا ہاتھ میں رہ گیا اور انہوں نے اپنا شکست خوردہ رد عمل کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ پھر اس وقت ان کی جان میں جان آئی جب اسی افسر نے آکر بتایا کہ فوج نے برما میں انقلاب بپا کردیا ہے اور رنگون میں فوجی دستے گشت کر رہے ہیں۔ ایوب خاں نے کہا کہ بس وہی لمحہ تھا جب میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب ہر حالت میں جتنی جلدی ممکن ہوسکے سکندر مرزا کو جانا ہوگا۔ مگر یہ کام اتنا آسان ہو گیا۔ اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔
داستان تو بڑی طویل ہے مگر مختصر کرتا ہوں سکندر مرزا اور انکی بیگم غریب الوطن ہو کر لندن جابسے وہ سکندر مرزا جس کے سامنے کوئی وزیراعظم آنکھ اٹھا کر بات نہیں کرسکتا تھا۔ جس کا کہا پاکستان میں آئین بھی ہوتا تھا اور قانون بھی۔ سلہت کی پہاڑیوں سے لے کر لنڈی کوتل جس کی ہیبت کے نشان کندہ تھے۔ جس کی آنکھ کا اشارہ اقتدار کی راہداریوں کا تعین کرتا تھا۔ جس کی شاطرانہ چالوں نے کئی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو کوڑے کا ڈھیر بنا دیا۔ جس کے بارے میں ان کی کابینہ کے وزیر ذولفقار علی بھٹو نے لکھا کہ قائداعظم کے بعد اگر پاکستان کو کوئی لیڈر نصیب ہوا ہے تو وہ سکندر مرزا ہے۔ جب جلا وطن ہوا تو ایک دو سوٹ کیس اور تھوڑی سی رقم کے علاوہ جیب میں کچھ نہ تھا۔ پورے ملک کے بینک چھان مارے گئے اس کے اکائونٹ میں ایک ماہ کی تنخواہ کے علاوہ کچھ نہ نکلا۔ نہ کوئی پلاٹ نہ کوئی پلازہ لندن جاکر درمیان سے کم درجے کے ایک ہوٹل کے مینجر کی حیثیت سے کام کیا اور دونوں میاں بیوی نے اسی عالم بے کسی میں زندگی گزاردی۔
آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف نہایت سوجھ بوجھ کے مالک اور مقدر کے سکندر نکلے انہوں نے سکندر مرزا کی المیہ داستان سے سبق سیکھا آصف علی زرداری نے اسی لئے نوٹوں کی بوریاں دبئی بھیجنے کے علاوہ دو ہوٹل بھی خرید لئے کہ کہیں سکندر مرزا کی طرح کسی دوسرے کے ہوٹل کی نوکری نہ کرنی پڑے۔ نواز شریف کے سمدھی اور پاکستان کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے لاکھوں کروڑوں ڈالر اپنی اولاد کو دئیے کہ دبئی میںہوٹل کے علاوہ پلازے بھی بنالیں۔ رہے نواز شریف تو انتہائی بے بسی کے عالم میں جب معافی مانگ کر جدہ روانہ ہوئے تو بیالیس کے لگ بھگ سوٹ کیس۔ کئی باورچی اور مالشیئے اور بے پناہ دولت ہمراہ تھی۔ آنکھ ہے کہ ابھی تک نہیں بھری۔ نہ جانے ابھی کتنی دولت اور کتنے وسائل باقی رہ گئے ہیں جو ان کی نیتوں کے فتور اور کرپشن کا نشانہ بننے والے ہیں۔ جن رہنمائوں اور سیاسی کارکنوں نے ایوب خاں کے خلاف جمہوری جدوجہد کی ہے ان کی عظمت کو سلام اور جو ’’آصف علی زرداری اور نواز شریف کمپنی کی‘‘ بدعنوانیوں کو بے نقاب کر رہے ہیں ان کو بھی سلام۔ … (ختم شد)
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024