پانامہ لیکس کا آنا تھا کہ ملکی سیاست نے ایک نئی کروٹ لی ، منظر نامے پر نہ صرف نئے نئے اتحاد بنائے جانے لگے بلکہ حالات کی کرشمہ سازی دیکھئیے کہ ہمارے وہ وزیر اعظم جن کو عوام کے پاس جانے کا کبھی خیال ہی نہیں آیا تھا کیونکہ ان کا وقت بیرون ممالک کے دوروں پہ زیادہ گزرتا تھا اور ملک میں کم ہی کبھی دکھائی دیتے تھے اب شہر شہر پھرتے روز نئے سے نئے منصوبوں کا افتتاح کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے پاکستان کا وزیر اعظم ہونے کے باوجود پنجاب سے باہر نہ نکلنے والے اب ہر صوبے کی خاک چھانتے نظر آتے ہیں ۔ کرپشن کا وہ ناسور جس نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے پہلے کبھی اتنی اہمیت کا حامل نہیں تھا اور احتساب کا لفظ صرف سیاسی مخالفین کیلئے ہی استعمال ہوتا تھا آج ہر زبان و زد عام ہے۔ جس وقت جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کر پشن فری پاکستان کی مہم کا آغاز کیا تھا تو مخالفین اس کو محض سیاسی نعرہ قرار دے رہے تھے لیکن آج اب ہر کوئی انکے نقش قدم پہ چلتے ہوئے ملک سے کرپشن کے خاتمے کی باتیں کر رہا ہے ۔ آج کے حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو آخر ہماری سیاست ہے کیا ؟ ملکی مفاد کی تشہیر کر کے ذاتی مفاد حاصل کرنا ، لوگوں کے جذبات سے کھیلنا ، اچھے دنوں کی آس دلا کر خود مشکل آنے پر منظر سے غائب ہو جانا ، عوام کو اپنی انگلیوں پر نچانا یا پھر وعدے کر کے مکر جانا ۔ پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد ہمیں آج پھر یہی سیاست نظر آتی ہے ۔ سیاست کی تعریف بہت سے مفکرین نے اپنی زبان میں مختلف انداز میں بیان کی ہے لیکن دانشور وں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سیاست دراصل موقع شناسی ، سوچ و بچار ، غور و تدبر اور باریک بینی کا نام ہے اور ہماری سیاست میں آپکو ان میں سے کن افکار کی جھلک دکھائی دیتی ہے اس کا فیصلہ آپ لوگ کریں لیکن میرے نزدیک سیاست کا رنگ دنیا میں کیسا ہی کیوں نہ ہو جب سے پاکستان بنا ہے ایک ہی رنگ دکھائی دیا ہے ذاتی مفاد کا ، جس کو ملکی مفاد کا نام دے کر عوام کے جذبات ، احساسات کی ہر مرحلے میں توہین کی گئی ہے ۔ سیاست ہمارے ہاں اس سٹیج کے اداکار کی مانند ہے جہاں جس کی اداکاری جتنی اچھی ہوتی ہے اس کو اتنی ہی داد ملتی ہے ۔ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے اور نہ ہی سیاست کا کوئی اخلاق ہوتا ہے کیونکہ اکثر سیاست دان اجتماعی مفادات کو انفرادی منفعت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ جدید سیاست کا تقاضا ہے کہ اخلاقی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر کامیابی کے زیادہ سے زیادہ امکان پیدا کئے جائیں جیسا کہ آپ نے حکومتی پارٹی کے آجکل کے جلسوں میں دیکھا ہو گا کہ وزیر اعظم صاحب اپنے آپ کو حقیقی ا حتساب کیلئے پیش کرنے اور پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہونے کی بجائے مخالفت برائے مخالفت میں اپنے جلسوں میں ایسی نا زیبا زبان استعمال کروا رہے ہیں کہ چشم فلک کو بھی حیا آنے لگتی ہے ۔وہ اپوزیشن جماعتیں بھی احتساب کی باتیں کررہی ہیں اپنا نہیں بلکہ دوسروں کا جو کئی بار حکومت کی باگ دوڑ سنبھال چکی ہیں اور ان کا اپنا ماضی کرپشن کی عظیم داستانوں سے بھرا پڑا ہے ۔ ملکی مفاد کا نام لے کر ذاتی مفاد کے حصول کی کہانی پاکستان میں کوئی نئی نہیں ہے ۔ جب سے پاکستان بنا ہے اس ملک کی سیاست ذات کے محور سے باہر نکل ہی نہیں سکی۔ جمہوریت ہو یا آمریت یا پھر مارشل لاء ہمیں تو کچھ بھی راس نہیں آیا ۔ موروثی سیاست کا کینسر اور کرپشن اس طرح سے ہماری سیاسی پارٹیوں میں سرائیت کر چکی ہے کہ اس نے سارے نظام کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے ۔ سیاست بذات خود جنس شرافت ہے اور نہ ہی شیطانی وراثت اسکے حواری اگر پست کردار ہوں تو یہ یوں تماش بینوں کا کھیل بن جاتی ہے جسکے اپنے بنائے ہوئے کردار عوام کے سامنے آکر اپنی اداکاری کے جوہر دکھا کر منظر سے غائب ہو جاتے ہیں جنہیں بعد میں تاریخ مختلف ناموں سے یاد کرتی ہے ۔ موجودہ دور حکومت اس لحاظ سے پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے جس میں ہر پارٹی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حوالے سے اقتدار کا حصہ ہے اور ہر کوئی شراکت اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے ۔ آج تقریبا تین برس گزر جانے کے بعد اہل حکمران کی تو جیبیں بھر گئیں اور لوگ تہی داماں رہ گئے ۔ پاکستان اس وقت جس نازک دور سے گزر رہا ہے وہ ہر پاکستانی کیلئے لمحہ فکریہ ہے لیکن ہمارے سیاست کے ایوانوں میں کھیل تماشا جاری ہے ۔ پہلے کس کا احتساب ہو بعد میں کس کا ، آئین کی کس شق کے تحت ہو ، وغیرہ وغیرہ انہیں اس بات سے کوئی سروکا ر نہیں کہ ملک کے اندر کیا ہو رہا ہے اور باہر کیا ، انہیں صرف فکر ہے تو اپنی وزارتوں کی ، اپنی کرسیوں کو بچانے کی ۔ اپنی حکومت کے د ن بڑھانے کی ۔ لوگ مرتے ہیں تو مرتے رہیں ، دشمن کے ہاتھ ہماری شہ رگ تک پہنچ جاتے ہیں تو پہنچتے رہیں ۔ اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اگر بدنام ہیں تو نیک نام تم بھی نہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جمہوریت یہاں پنپ نہیں پاتی اور جمہوری ادوار کے کچھ عرصے بعد ہی لوگ کسی اور نجات دہندہ کی شکل دیکھنی شروع کر دیتے ہیں ، اسکی سب سے بڑی وجہ یہی کرپشن ، کالا دھن بنانے کی دھن اور اقتدار کے مزے لوٹنا ہے جس میں عوام کا مفاد دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ۔ ہمارے ہاں سیاست کے اس کھیل میں آج تک ہمیشہ سب سے زیادہ نقصان ملک کا ہی ہوا ہے ۔ ایک دفعہ جسٹس کیانی نے ہماری سیاست کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا کہ سیاست دان لوگوں کو پہلے سبز باغ دکھایا کرتے تھے اور اب کالے باغ دکھائے جاتے ہیں ۔
uعلیم ، صحت جیسی بنیادی ضروریات جو ہر شخص کا حق ہے اس سے ایک عام پاکستانی آج بھی محروم ہے ۔ ہسپتالوں کا یہ حال ہے کہ وزیراعظم کو صرف چیک اپ کروانے کیلئے پورے ملک میں ایک بھی قابل ہسپتال نظر نہیں آتا اور لندن روانہ ہو جاتے ہیں اور لیہ جیسے شہر میں صرف زہریلی مٹھائی کھانے سے 30 لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں ۔ ہمارا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک ان سیاسی نوٹنکیوں اور شعبدہ بازوں سے ہم چھٹکارا حاصل نہیں کر لیتے اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ عوام اپنے حق کی جنگ لڑنے کیلئے خود آگے آئیں اور حکمرانوں سے انکی کمائی ہوئی دولت کا حساب مانگیں ، کرپشن سے نجات حاصل کئے بغیر خوشحال پاکستان کا خواب ناممکن ہے ۔ عوام دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں ہمیں صرف اپنی طاقت کا ادراک کرنا ضروری ہے اگر آج ہم سیاست کی رنگ بازیوں میں آنے کی بجائے صرف اپنے لئے مخلص حکمران ڈھونڈ لیں اور ملک کے ہر محکمے سے کرپشن کی جڑ کو اکھاڑ پھینکنے میں اپنا کردار ادا کریں تو یقین جانیں ہمارے مسائل کا حل نہ صرف ممکن ہو گا بلکہ نئی اور روشن راہوں کا سفر بھی ہمارا نصیب بن جائے گا ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38