حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز پوچھ رہے ہیں کہ اُن پر کیا الزام ہیـں یہ تینوں سیاسی بچے ہیں اسی لئے سیاسی تاریخ میں کچے ہیں۔ انہیں ہماری ہسٹری کی کتابیں پڑھنی چاہئیں کہ گزشتہ 70 برسوں میں کئی حکمرانوں نے یہی سوال پوچھا۔ مثلاً لیاقت علی خان کی روح پوچھتی ہے کہ مجھے کیوں قتل کیا گیا؟ حسین شہید سہروردی پوچھ پوچھ کر تھک گئے کہ مجھ پر کیا الزام تھا؟ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کیوں دی گئی؟ محمد خان جونیجو کیوں برطرف ہوئے؟ جنرل ضیاء الحق کا طیارہ ہوا میں کیوں پھاڑا گیا؟ بینظیر بھٹو کودو مرتبہ حکومت سے کیوں نکالا اور وہ بم دھماکے میں کیوں مریں؟ وغیرہ وغیرہ۔ حسن، حسین اور مریم نواز یہ سوال اگر دوسروں سے نہیں پوچھ سکتے تو کم از کم اپنے والد نواز شریف سے پوچھ کر دیکھیں کہ غلام اسحاق خان نے 1993ء میں وزیراعظم نواز شریف کو کیوں نکالا؟ اور جب نواز شریف غلام اسحاق خان کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ جیت کر وزارت عظمیٰ پر بحال ہوگئے تو پھر تھوڑے ہی دنوں بعد وزیراعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان نے خود استعفے کیوں دے دیئے؟ یا یہ کہ اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کے خلاف جنرل پرویز مشرف نے فوجی بغاوت کیوں کی؟ ان تینوں سیاسی بچوں کو اگر ہسٹری جواب دے کر مطمئن کردے تو ٹھیک ورنہ انہیں سیاسی کچے پن کے سوال کرنا چھوڑ دینے چاہئیں۔ اردو ادب کے نامور لکھاری کنہیا لال 1910ء میں ضلع لائل پور کے شہر کمالیہ کے قریب ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کیا۔ وہ پطرس بخاری کے چہیتے شاگردوں میں سے ایک تھے۔ ان کا ایک مشہور افسانہ ’’گرفتاری‘‘ ہے جو کچھ یوں ہے۔ ’’دکان کی کڑی نگرانی کرنے والے سپاہی نے اُسے دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ سپاہی نے اِس سنسنی خیز واقعے کی اطلاع تحصیل ہیڈکوارٹرز پہنچائی۔ تحصیل ہیڈکوارٹرز نے ضلع ہیڈکوارٹرز کو بذریعہ تار مطلع کیا۔ ضلع ہیڈکوارٹرز نے کمشنری ہیڈکوارٹرز سے ٹیلی فون پہ مشورہ کیا۔ کمشنری ہیڈکوارٹرز نے ہدایت دی کہ اِس سے پیشتر کہ ملزم انڈرگرائونڈ ہوجائے اُسے گرفتار کر لیا جائے۔ دوسرے دن جب وہ دفتر جانے کی تیاری کررہا تھا تو ایک انسپکٹر صاحب نصف درجن سپاہیوں کے ساتھ اُس کے مکان پروارد ہوئے اور اُسے تلاشی دینے کا حکم دیا۔ تلاشی؟ اُس نے ذرا گھبرا کرکہا۔ لیکن مجھ سے کون سا جرم سرزد ہوا ہے؟ یہ ہم تمہیں کیسے بتاسکتے ہیں، تمہارا جرم صیغہ راز میں ہے انسپکٹر نے روکھے پن سے جواب دیا۔ ذرا اپنا کوٹ اتارو۔ انسپکٹر نے اوپر کی جیب سے ایک فائونٹین پین نکالا۔ غور سے اُس کا جائزہ لیا اور اُس کی نب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ زیادہ تیز معلوم ہوتی ہے، اس کی وجہ بیان کرو۔ لکھنے میں اچھی رہتی ہے۔ انسپکٹر نے کاغذ پر نب سے لکھتے ہوئے کہا تم پین میں لال سیاہی کیوں استعمال کرتے ہو؟ مجھے لال سیاہی اچھی لگتی ہے اور اِس پر بھی تم کہتے ہو تم سے کوئی جرم سرزد نہیں ہوا۔ انسپکٹر نے سپاہیوں کی طرف ایک طنزیہ مسکراہٹ پھینکتے ہوئے کہا۔ کوٹ کی دوسری جیب سے لڑکی کی تصویر والا ایک لاکٹ نکلا۔ یہ کس کی تصویر ہے؟ انسپکٹر نے پوچھا۔ ایک لڑکی کی۔ اُس کا نام؟ اُس کا نام میں نہیں بتا سکتا۔ صیغہ راز میں ہے؟ ہے نہیں انسپکٹر صاحب! تھی۔ یہ قصہ ہے تب کا جب آتش جواں تھا۔ آتش؟ آتش کون ہے؟ ایک شاعر۔ اُس کا پتہ لکھوائو۔ آتش لکھنوئی، ادب آباد۔ ادب آباد یوپی میں ہے ناں؟ نہیں۔ توپھر کون سے صوبے میں ہے؟ اٹلس پہ تلاش کرلیجئے گا۔ انسپکٹر صاحب ذرا کھسیانے ہوکر تیسری جیب کی تلاشی لینے لگے۔ اُس میں سے جیب گھڑی نکال کر انہوں نے ایک سپاہی سے کہا ذرا اس گھڑی کو کھول کر دیکھو۔ گھڑی کس لئے کھولنا چاہتے ہیں؟ اُس نے پوچھا میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم نے اس میں کچھ چھپا تو نہیں رکھا؟ گھڑی میں کون سی چیز چھپائی جاسکتی ہے؟ کئی چیزیں مثلاً کاغذ کے پرزے، خفیہ دستاویزیں، وائرلیس۔ پیغام بھیجنے کا آلہ! ایک سپاہی نے اپنے افسر کی مدد کی۔ گھڑی کھولی گئی لیکن اُس میں سے کوئی چیز برآمد نہ ہوئی۔ اچھا اب گھر کی تلاشی دو۔ انسپکٹر نے ساتھ والے کمرے میںداخل ہوتے ہوئے کہا۔ اس میں کیا ہے؟ انہوں نے کنستر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ مٹی کا تیل مجھے تو اس سے تیزاب کی بو آتی ہے یہ لوہے کے ٹکڑے یہاں کیوں پڑے ہیں؟ تالہ توڑا تھا۔ کس کا تالہ توڑا تھا؟ اپنا کیوں توڑا تھا؟ چابی گم ہوگئی تھی۔ اس الماری میں کیا ہے؟ کتابیں۔ انسپکٹر صاحب کتابوں کے ناموں پہ نظر دوڑانے لگے۔ انہوں نے ایک کتاب نکال کر پوچھا اس کتاب میں کیا لکھا ہے؟ پڑھ لیجئے۔ میں ذرا انگریزی کم سمجھتا ہوں توپھر رہنے دیجئے نہیں! تم گردپوش پر لکھی یہ چند سطریں پڑھ کر مجھے سنائو لکھا ہے کہ جس ملک میں آزادی تحریرو تقریر پر پابندی لگائی جاتی ہے وہ ملک مہذب کہلانے کا حقدار نہیں یہ الفاظ قابلِ اعتراض ہیں وہ بولا یہ تحریک آزادی کے قائدین کے الفاظ ہیں۔ انسپکٹر نے کہا پھر ٹھیک ہے۔ چارپائی پر پڑی ہوئی رضائی کی طرف دیکھتے ہوئے انسپکٹر نے پوچھا اس میں کیا ہے؟ دُھنی ہوئی روئی ہے۔ میرا مطلب ہے روئی کے علاوہ؟ ہوا میں کپڑے کو ادھیڑ کر دیکھنا چاہتا ہوں فائدہ؟ شاید کوئی قابلِ اعتراض چیز نکل آئے۔ جب رضائی کا کپڑا ادھیڑا گیا تو روئی کے اوپر ایک مرا ہوا کیڑا پایا گیا۔ اِن ٹرنکوں میں کیا ہے؟ بم اور پستول۔ مذاق مت کرو، ٹھیک ٹھیک بتائو۔ اینٹیں اور پتھر۔ تم پھر مذاق کررہے ہو؟ صاف صاف کہو آپ کے خیال میں کیا ہوسکتا ہے؟ کپڑے۔ پھر پوچھ کس لئے رہے ہیں؟ یہ میرا فرض ہے۔ تمام ٹرنک کھلوائے گئے ہر کپڑے کو الٹ پلٹ کر دیکھا گیا۔ ٹین کو ٹھونکے دے کر تسلی کی گئی کہ یہ واقعی ٹین ہے۔ اس طرح تلاشی کا سلسلہ تین گھنٹے جاری رہا مٹی کے تیل کے کنستر، ٹوٹے ہوئے تالے کے ٹکڑے اور فائونٹین پین کو کیمیکل ایگزامنر کے پاس بھیجنے کے لئے قبضے میں لے لیا گیا اس کے بعد انسپکٹر نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا میں تمہیں زیر دفعہ پبلک سیفٹی ایکٹ گرفتار کرتا ہوں چھ مہینے جیل میں قید رہنے کے بعد جب وہ رہا ہوا تو اُسے پتہ چلا کہ اُس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ایک ایسی دکان کے سامنے سے گزرا تھا جہاں آزادی کی کتابیں فروخت کی جاتی ہیں‘‘۔ حسن، حسین اور مریم نواز کو ’’ہم پر الزام کیا ہے‘‘ جیسا سوال کرنے کی بجائے یہ پوچھنا چاہئے کہ ’’اب نواز شریف کس دکان کے سامنے سے گزرے ہیںـ؟‘‘
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024