جب آپ سے کوئی غلطی ہو جائے تو پریشان مت ہوں۔ سکون سے آرام دہ صوفہ پر دراز ہوں۔ چائے کا کپ نوش کریں اور سوچیں ”الزام کس پر لگانا ہے“۔شیخوپورہ ٹرین حادثہ۔ ”سٹیشن ماسٹر“ ذمہ دار قرار۔ یہ تو پرانی خبر ہے۔ ہاں تاریخ کے لحاظ سے پرانی ہے مگر ذمہ دار کے حساب سے نئی۔ سٹیشن ماسٹر ذمہ دار کیسے ٹھہر گیا۔ ڈرائیور۔ اسسٹنٹ ڈرائیور چونکہ حادثہ میں ہی ہلاک ہوچکے تھے اسلئے کمبل کسی پر تو ڈالنا تھا۔ اب یہ تو نہیں ہو؟ یہ ”خواجہ صاحب“ ریلوے سے زیادہ ”پانامہ“ میں کیوں متحرک ہیں۔ وہی بات الزام لگادیا۔ معلومات کے بغیر الزام۔ ابھی پچھلے ہی دنوں ”ہیڈ کواٹر“ میں 2025ءمیں ریلویز کیسا ہوگا پر مشاورتی سیشن ہوا۔ ویسے بھی زیادہ تر حادثات ریل انتظامیہ کی غفلت باعث ہوئے۔ اب بہتری کا سوچا جارہا ہے۔ تو دھیرج رکھیں۔ خیر برآمد ہوگی۔ مختصر درد رکھتے ہیں۔ خطیر مالی امداد اسی احساس کا عکس ہے۔ دوسرا لیڈرز کی پارٹی قیادت سے کامل خلوص۔ وابستگی تو بہت احسن جمہوری رویہ ہے۔نئی وردی پر پولیس خوش نہیں۔ چلو کوئی ایک پہلو پولیس والوں کو بھی اچھا نہیں لگا۔ اعتراض ہے نئے رنگ نے رعب کم کردیا۔ بمطابق خبر بقول ایک اعلیٰ افسر ساری گریس ہی ختم ہوگئی۔ صبح کہتے ہیں۔ ویسے یہ رنگ تو انڈین آرمی جیسا نہیں تبھی دبدبہ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ پاک سرزمین سے ”بی آر بی“ پار کہاں چل نکلے۔ ان کا یونیفارم بھی تو اسی رنگ کا ہے شاید۔ یہ الزام لگنے کی مشق ہے یا مذاقاً بات پھینکی ہے۔ ایسی بات نہیں۔ اصل نکتہ پر ذہن بٹھاﺅ۔ رعب ”وردی“ میں نہیں۔ عمل میں ہے۔ وردی میں ہوتا تو انڈین فوج میں باغی نہ اگتے۔ عوام میں احترام اداروں کو معتبر محترم بناتا ہے۔ہم آج بہت خوش ہیں۔ کس بات پر؟ بالا آخر منبر و محراب کے اصل وارثوں نے (وہ بھی پچاس عدد) جعلی پیروں کے خلاف مشترکہ فتویٰ دیتے ہوئے حکومت سے ان کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کردیا۔ عوام کے لئے ناسور بنتے مسئلہ پر اکثریتی آواز کا بلند ہونا خوش آئند ہے۔ مگر ایک نکتہ پر ہمارا موقف مختلف ہے۔ کیا؟ مان لیا ”20“ قتل ناحق ”پیر“ کے ذمہ لگے۔ جعلی تھا یا اصلی مگر جو قتل ہوئے وہ نا سمجھ تھے بہرے، گونگے تھے جو جانتے بوجھتے صریحاً گمراہی کا شکار ہوگئے۔ ایسے ”چنگیز خانوں“ کی اصل ”سہولت کار“ عوام ہے۔
آسان فارمولہ، الزام، اب ہمیں الزام خان نہ بنا ڈالنا۔ سیاسی رنجش کی تاریخ تو جعلی پیری، مریدی سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ سیاسی ڈیروں، جلسوں میں ایسے سانحات معمول کی بات ہیں۔ سیاست دیکھو سماج سے جڑی ہے۔ کوئی بندہ بشر مقامی۔ قومی حالات سے لا تعلق نہیں رہ سکتا مگر یہاں تو ”دین مبین“ کا ایشو ہے۔ توہم پرستی کے مارے ہوئے لوگ اسلام کی اصل، بنیادی تعلیمات کو فراموش کر کے چلتے پھرتے شعبدہ بازوں پر جلدی یقین لے آتے ہیں جبکہ کائنات کے ہر ذرے، ہر حرکت میں رواں، کار فرما، ”رب رحمن ذی شان“ کی نشانیاں نظر انداز کردیتے ہیں۔نظر انداز تو ”قدیمی اتحادی“ نے بھی کردیا۔ ایک اور یوٹرن، کون سا یوٹرن؟ بڑھتی کشیدگی پر ”صدر ٹرمپ“ کی ثالثی پر دوبارہ آمادگی کے باضابطہ اظہار کے بعد واپسی سے رجوع، محترم طاقتور چاہے دشمن ہو‘ کی دنیا سنتی ہے۔ سننے کا معیار طاقت نہیں، تو کیا ہے؟ قوم وطن کے ساتھ وفاداری اور وعدوں کی پاسداری تو انڈیا نے ہم سے اور عالمی برادری سے بھی کئے تھے۔ مقبوضہ کشمیر تعلقات کی بحالی بہتری بابت۔
حریف ممالک کے آپسی وعدے نہیں، بہکاوے کہلاتے ہیں۔ پھر جب بات جا پنچے، وجود کو تسلیم نہ کرنے کی تو پھر تصویر زیادہ دھندلی نہیں رہتی۔ لوجی وعدے سے یاد آیا۔ ٹماٹر اور مرغی کی قیمتیں کم نہیں ہو پائیں وعدوں کے باوجود، بس یہی مماثلت ہے سیاسی اور ریاستی وعدوں کی۔ اب ایسا کرو اطمینان سے پہلے چائے پی لو۔ پھرسوچو الزام کس پر لگانا ہے۔ احمقانہ مطالبات ہیں سوجھ بوجھ سے عاری سوسائٹی۔ حکومت خارجہ امور سنبھالے، داخلہ امور سے نمٹے۔ قانون بنائے یا سبزی منڈیاں کنٹرول کرے۔ عوام خود بھی تو اپنے ہم وطنوں سے انسانوں والا سلوک رکھے۔ احترام دے۔ ملاوٹ جعل سازی چھوڑ دے۔ تو حکومت کے کھاتے میں کونسا کام رہ گیا۔ اب کیا ریاست موٹر سائیکلوں پر دودھ بیچے؟ ملاوٹ کرنے والوں کو پکڑنا ریاستی عملداری میں آتا ہے جو بخوبی کر رہی ہے۔ اخباروں میں زیادہ چلت پھرت نظر نہیں آتی؟ روایتی الزام ڈگر سے ہٹ کر سوچیں تو نہیں۔ مناسب پبلسٹی موزوں رہتی ہے۔
الزام سے یاد آیا، یہ ”ملاقات“ کی خوشی پر دھاندلی کے الزام کی مٹی کیسے۔ کیوں چھا گئی۔ کوئی طے شدہ منصوبہ یا پلانٹڈ سازش معلوم نہیں۔ دونوں میں سے کچھ بھی نکلے ہے دکھ والی بات۔ ”لوگ“ تو کہتے ہیں اسلامی اتحاد کی سربراہی کے علاوہ ”متوقع فیصلہ“ پر ٹھنڈا رہنے کی ہدایت یا تلقین بھی تھی۔ حیرت کم افسوس زیادہ کہ مختلف موضوعات پر محیط ملاقات کو نام نہاد دانشور اپنی ذہنی اپچ کے مطابق بڑھا۔ پھیلا رہے ہیں۔ دیکھو، افواہ ساز فیکٹریاں جو چاہئے ایجاد کریں۔ کسی بھی معیار کا مٹیریل تراشیں، مارکیٹ کریں۔ عوام امید کی جوت بجھنے نہ دیں۔ حکومت اور ہر اہم ادارہ، ہر دو سرگرم عمل ہیں۔ اندرونی یا بیرونی ہو رہی ملاقاتیں بے اثر نہیں رہیں گی۔ کیونکہ واضح پیغام ہے کہ پاکستان کا غدار پاکستان میں نہیں رہ سکتا۔ نہ ہی اب کوئی پاکستان کو بائی پاس کرسکتا ہے۔ ہم تو زور دینگے کہ صرف پاکستان نہیں بیرون پاکستان بھی غداروں کو رہنے کی اجازت۔ سہولت نہیں ہونی چاہئے۔ تقرری چھوٹی ہو یا ہائی لیول کی ہمیشہ ریاستی حمایت، منظوری سے متصف ہوتی ہے۔ نجانے ہر تعمیری کام۔ فیصلہ کو خود سے لوگ دھند میں کیوں لپیٹ لیتے ہیں کاش بدل جائیں رویے ہمارے اور یہ بھی ”الزام کس پر لگانا ہے“۔ !
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38