اقوام متحدہ کا ادارہ دنیا میں بسنے والی تمام قوموں کے درمیان باہمی تنازعات اور جھگڑے پر امن طور پر حل کرنے کیلئے تشکیل دیا گیا تھا۔اس ادارے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ دنیا میں کمزور ملکوں کو طاقتور ملکوں کے جبر سے بچایا جائے۔مظلوموں کو ظالم کے ظلم سے بچانا اور اسکی داد رسی اس ادارے کی اہم اکائی سمجھی جاتی ہے۔ مگر جب سے یہ ادارہ بنا ہے کمزور کو تحفظ تو دور کی بات ہے اسکے بل بوتے پر طاقتور ملکوں نے اس ادارے کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اقوام عالم کے بنیادی حقوق کی حفاظت کیلئے کام کرنے والا یہ ادرارہ بلاشبہ اپنے قیام سے لیکر آج تک امریکہ اور دوسرے طاقتور ملکوں کے مفادات کا ہی خیال کرتا نظر آتا ہے ۔اس ادارے نے کبھی بھی مسلم ملکوں کے حق میں کوئی واضع فیصلہ نہیں دیا بلکہ جب جب اسرائیل نے فلسطین میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا تو اس ادارے نے کبھی بھی فلسطین میں بسنے والے مسلمانوں کے حق میں ایسی کوئی آواز نہیں آٹھائی جس کے ہوتے ہوئے اسرائیل کو فلسطین کے عوام پر ظلم سے روکا جا سکے۔ نہ ہی اس ادارے کو بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں ہونیوالے ظلم کبھی نظر آئے ہیں۔
اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں میاں نواز شریف صاحب نے اس دفعہ بھر پور انداز میں اس ادارے کی کارکردگی پر بات کی ہے ۔جناب نوازشریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے شریف اور وضع دار آدمی ہیں اور انکے دل میں بھارت کیساتھ بہتر تعلقات کی محبت کچھ زیادہ ہی ہے ۔پاکستان میں ہمارے بڑے بڑے اینکر اس بات کا یقین کرنے کیلئے تیار ہی نہ تھے کہ وزیر اعظم اپنے خطاب میں برائہ راست بھارت کو کوئی سخت پیغام دینگے۔بڑی بڑی بڑکیں نہ مارنے والے وزیر اعظم نے جب جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا اقوام متحدہ کی کھلی ناکامی کہا ۔ تو انکے الفاظ کا اثر پوری دنیا کے منصفوں کا چہرہ بے نقاب کر گیا۔ ان کا یہ بیان کسی سیاسی جلسے کا حصہ نہیں تھا نہ ہی وہ اپنے ملک کے کسی چوک میں اپنے کارکنوں سے مخاطب تھے بلکہ وہ ایک ایسے فورم پر کھڑے ہو کر اسی فورم کو اسکی کوتاہیوں کا احساس دلا رہے تھے جہاں بولنے والے کی ایک ایک بات اور ایک ایک لفظ ریکارڈ کا حصہ بن جاتا ہے ۔وزیر اعظم کی تقریر نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ۔ایک طرف پاکستان میں اس جامع تقریر کو سن کر ہماری قوم کا سر فخر سے بلند ہو گیا ۔ قریب سارے ہی اینکر پرسن اس تقریر کو سن خوش دکھائی دیے۔وہیں ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے میڈیا میں اس خطاب کو سن کر گویا آگ سی لگ گئی۔وہ کھلے عام کہے جا رہے تھے کہ انہیں نوازشریف صاحب سے اس قسم کے خطاب کی بالکل امید نہ تھی۔اس تقریر سے ایک طرف بھارت پہلی بار دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا ۔تو دوسری طرف ہمارے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی منافقت اور دوغلے پن کو اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے نقاب کیا۔وزیر اعظم نے بر ملا کہا کہ سوڈان میں مسیحی اقلیت اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے تو اسے فوراً ایک علیحدہ ملک دے دیا جاتا ہے مگر کشمیر میں ہندو فوج نہتے کشمیری عوام پر ظلم کرتی ہے فلسطین میں بے گناہ مسلمانوں کو ہر روز شہید کیا جارہا ہے۔برما کے مسلمان ایک عرصہ ہوا ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔
جناب نوازشریف صاحب نے اپنے خطاب میں بھارت کو چار واضع نکات پیش کیے۔جو انکی حکمت عملی اور معاملہ فہمی کا بھر پور مظہر ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں طاقت کے استعمال کی دھمکیاں نہ دی جائیں۔کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی جائے۔وزیر اعظم نے کھلم کھلا کہا کہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا بھارت کی بنیادی پالیسی رہی ہے اور اسکی تنظیم ہمارے ملک کے اندر عرصہ دراز سے پراکسی وار شروع کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی کشیدگی روکنے کیلئے اقوام متحدہ کے مبصرین کو مزید مضبوط اور فعال کیا جائے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیاں کشمیر ایک ایسا حل طلب مسئلہ ہے کہ اس کو جتنی جلدی ہو سکے کشمیری عوام کی مرضی سے حل کر لینا چاہیے۔کشمیر کی تین نسلوں کو جبر تشدد اور شکستہ وعدوں کے سوا کچھ نہیں ملا ہے۔وزیر اعظم کے خطاب کا اصل محور مسلم دنیا کے ساتھ ہونے والی نا انصافیاں اور پاک بھارت تعلقات ہی تھے۔
اس وقت بھارتی حکومت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے آچکا ہے ۔سیلفیاں بنا کر اپنا اچھا تاثر پیش کرنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہ ہوں گی ۔بھارت میں چند دن پہلے ایک مسلمان کو صرف اس شک کی بنیاد پر قتل کر دیا گیا کہ اس نے گائے کا گوشت کیوں کھایا۔صرف شک کی بنیاد پر ایک آدمی کا قتل یہ جنونی اور ہندو انتہا پسند بھارت کا اصل چہرہ ہے۔اس وقت پوری دنیا میں جتنی مذہبی پابندیاں اقلیتوں کیلئے بھارت میں ہیں ۔ وزیر اعظم کے خطاب سے دنیا پر کوئی اثر ہو نہ ہو مگر پوری مسلمان دنیا نے انکی آواز کو اپنی آواز جانا ہے اور اب اقوام متحدہ کو بحیثیت ایک عالمی ادارہ اپنا وقار بحال کرنے کیلئے مسلمانوں کے حقوق کا بھی اتنا ہی تحفظ کا عملی مظاہرہ کرنا ہے ۔ جتنا کے کسی بھی دوسرے مذہب کے لوگوں کا ۔ نیویارک میں ہی ابھی اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس ہوا ہے جس میں مشیر خارجہ سر تاج عزیز نے پاکستان کی طرف سے شرکت کی ہے ۔کویت کے وزیر خارجہ شیخ صباح ا لخالد نے اس اجلاس کی صدارت کی ۔اس جلاس میں بھی کشمیری عوام کے حقوق کو لے کر ایک قرار داد پاس کی گئی اس میں مطالبہ کیا گیا ۔کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مطابق حق خود ارادیت دیا جائے۔مشیر خارجہ پاکستان نے تجویز دی کہ پوری مسلم دنیا میں ہونے والے مظالم کے خاتمے کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کو بہتر انداذ میں فعال کیا جائے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024