علامہ اقبال کے ہونہار صاحبزادے جسٹس (ر) جاوید اقبال ایک بھرپور، کامیاب اور باعزت زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ مرنا تو سبھی نے ہے مگر بھرپور اور باعزت زندگی گزارنا ہر ایک کا نصیب نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے عزت اور دولت کے ساتھ ’’محبت‘‘ بھی خوب کشید کی، جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال ایک خوش مزاج اور خوش وضع، خوش شکل خاتون ہیں، بطور اہلیہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بہترین رفاقت نبھائی ہے۔ میری ہر تقریب میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں۔ میری شادی سے لے کر اخباری فورمز اور میری کتابوں کی تقاریب میں آگے آگے رہتی رہی ہیں۔ پریس کلب میں میرے اعزاز میں ہونیوالی تقریب کی صدارت بھی انہوں نے کرنی تھی لیکن اس دن ڈاکٹر جاوید اقبال کی طبیعت بگڑ گئی۔ انہیں شوکت خانم لے جایا گیا جہاں معمولی سرجری ہوئی۔ مجھے بیگم ناصرہ جاوید اقبال نے معذرت کے ساتھ بتایا کہ ڈاکٹر صاحبہ میں اس وقت شوہر کے ساتھ ہسپتال ہوں۔ میں نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ اچھا میں ڈاکٹر جاوید اقبال سے ملنے گھر آئوں گی مگر بدقسمتی سے تین مرتبہ پروگرام بنانے کے باوجود نہیں جا سکی۔ بیگم ناصرہ جاوید نے مجھے ہر بار کہا کہ وہ اب فون پر زیادہ دیر بات نہیں کر سکتے۔ آپ گھر آجائیں۔ وہ آپ سے مل کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر جاوید اقبال کے پانچ بھرپور انٹرویوز کیے۔ کبھی نوائے وقت، کبھی میگزین، کبھی چینل اور کبھی معاصر اخبار کیلئے۔ انکے اکثر بیانات لیتی رہتی تھی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی دو کتابیں اپنا گریباں چاک، زندہ روڈ پڑھیں تو میں انکی زیادہ قائل ہو گئی۔ میں جب بھی ان کا انٹرویو کرنے انکے گھر گئی، میرا کبھی دل نہ چاہا کہ نشست برخاست ہو۔ خود یہ بات میرے لئے بڑی سعادت اور فخر کی تھی کہ کم وبیش یہی جذبات جسٹس (ر) جاوید اقبال کے ہوتے تھے۔ کہنے کو جسٹس (ر) جاوید اقبال عمر میں میرے والد سے بھی بڑے تھے۔ ڈاکٹر صاحب 1924ء میں پیدا ہوئے اور میرے والد ادریس محمد خان مرحوم 1932ء میں۔ خود میرے والد مرحوم ان کی ذہانت اور علم کے گرویدہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ علامہ اقبال کا نقش ثانی ہیں۔ مجھے ڈاکٹر جاوید اقبال سے بات کر کے بہت اچھا لگتا تھا۔ میں اکثر اپنی خبروں اور فیچرز کیلئے ان سے بیانات بھی لیتی رہتی تھی۔ خاص طور پر پی ایچ ڈی کے دوران میں اکثر فون پر ڈاکٹر صاحب سے کافی لمبی بحثیں کیا کرتی تھی بعض اوقات ایک سوا گھنٹہ گزر جاتا۔ میں ان سے علم، مذہب، فلسفہ، ثقافت اور کرنٹ افیئرز پر بات کرنے کے علاوہ ادب اور عدلہی پر بھی بات چیت کیا کرتی تھی۔ میں زندگی میں کئی ’’بابوں‘‘ سے متاثر رہی ہوں جن میں اپنے بابا (والد مرحوم) مجید نظامی مرحوم، ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر وحید قریشی اور ڈاکٹر سلیم اختر شامل ہیں، خدا ڈاکٹر سلیم اختر کو زندگی اور صحت دے۔ اب وہی باقی ہیں۔ بہت سے بد خواہوں نے ڈاکٹر سلیم اختر سے میرا دل میلا کرنا چاہا مگر میرے دل میں کوئی بال برابر بھی میل نہ ڈال سکا۔ میں ہر شخص کو اپنے طور پر پرکھتی ہوں، میں نے انہیں ایک ادیب، نقاد اوراستاد سے بڑھ کر ایک مشفق اور مہربان انسان پایا۔ اسی طرح جب میں معاصر اخبار میں لیڈی رپورٹر تھی اور اپنے کیریئر کی ابتداء میں تھی تو پہلی بار ڈاکٹر جاوید اقبال سے فون پر بات ہوئی۔ میں اس وقت صرف 20سال کی کمر عمر ، لاپرواہ اور کم علم لڑکی تھی۔ شاید میرے سوال اتنے جامع اور مربوط بھی نہیں تھے مگر ڈاکٹر جاوید اقبال خود لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ وہ میرے سوالوں کی روح اور اسکے مفہوم کو بھانپ گئے تھے چنانچہ انہوں نے مجھے تقریباً 25منٹ سب سوالوں کے جواب دیئے۔ انہیں میری آواز کے کچے پن کے باوجود میرا اعتماد اور یقین اچھا لگا اس لئے مجھے کہنے لگے کہ نو آموز لیڈی رپورٹر تم ذہین ہو، جب کوئی سوال کلبلائے تو فون کر کے بچے پوچھ لینا۔ اس دوران میں نے لاتعداد فون کئے۔ گزشتہ سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب مجید نظامی مرحوم فوت ہوئے تو میں نے دو دن بعد فون کیاکیونکہ میں کافی مغموم تھی۔ مجید نظامی مرحوم کے ساتھ جو میری محبت اور ان کا لاڈ تھا اور میرا جو مان تھا۔ وہ سب انکے ساتھ ہی چلا گیا۔ میں نظامی صاحب کے انتقال کی خبر سن کر اسی طرح پھوٹ پھوٹ کے روئی تھی جیسے اپنے بابا کا جنازہ اٹھنے پر روئی تھی۔ کئی دن سوگوار رہی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے سر سے سائبان چھین لیا ہو۔ وہ بہت سنجیدہ انسان تھے کبھی کبھار مسکراتے تھے البتہ پرلطف جملے اکثر کہا کرتے۔ جب میں اپنی یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کو نوائے وقت کا وزٹ کرانے لے گئی تو نظامی صاحب ہمارا انتظار ہی کررہے تھے۔ میں نے اپنے سٹوڈنٹس کو لے جانے سے پہلے سمجھایا کہ آپ لوگ زیادہ شوخیاں نہ دکھایئے گا۔ صرف ضروری سوال کریں اور انتہائی سنجیدگی متانت سے مؤدب ہو کر بیٹھیں۔ خیر جب میں اپنے سٹوڈنٹس کے ساتھ آفس میں آئی تو نظامی صاحب نے محبت اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کھڑے ہو کر استقبال کیا۔ نظامی صاحب نے مجھ سے کہا کہ بھئی صبح سے شور مچا ہوا تھا کہ ڈاکٹر عارفہ اپنی یونیورسٹی کے بچوں کے ساتھ نوائے وقت کا وزٹ کرنے آ رہی ہیں مگر یہ بچے تو بڑے جوان اور تگڑے بچے ہیں۔ یہ بچے ہیں یا بڑے ہیں؟؟ عام طور پر وزٹ کیلئے دس پندرہ سولہ بچے آتے رہے تھے۔ میں 35 سٹوڈنٹس کے ساتھ گئی، ان میں لڑکوں کی تعداد 31 تھی اور چار لڑکیاں تھیں۔ ماشاء اللہ سبھی لڑکے چھ فٹ کے ہیرو جیسے تھے۔ دو تو چھ فٹ سے بھی لمبے تھے۔ چند منٹ میری کلاس بہت مؤدب اور مہذب رہی۔ آفس میں کرسیاں کم پڑ گئیں۔ نظامی صاحب نے اپنے ساتھ ملاقات کا ٹائم 15منٹ رکھا تھا۔ سوا گھنٹہ ملاقات جاری رہی۔ میری کلاس کے شوخ وسنگ، تیز طرار لڑکوں نے نظامی صاحب سے ایسے ایسے سوالات کئے کہ وہ دنگ رہ گئے اور ہر سوال کا جواب تفصیل سے دیتے رہے۔ کہنے لگے کہ آج آپ اقبال کے شاہینوں کے ساتھ آئی ہیں اور آپ بے مثال صحافی ہونے کے ساتھ زبردست استاد بھی ہیں۔ وہ میری نظامی صاحب سے آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ دل میں جگہ بنانے اور انمٹ نقوش قائم کرنے کیلئے دولت، جاہ مرتبہ یا حکمرانی اور ہتھکنڈوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔جو ذہین، بااعتماد، خلیق، وسیع النظر بڑے دل والے ہوتے ہیں ان کا اکائونٹ ہر زمانے، ہر عمر، ہر طبقہ اور ہر شخص کے دل میں کھلا رہتا ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا وہ ہمارے ہم عمر، ہم مزاج ہیں یا نہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024