کہتے ہیں کہ ڈرامہ نگا رکو ڈرامے کے پلاٹ اور کردار نگاری پر مناسب توجہ دینا ہوتی ہے۔ ایک عام آدمی شاید یہ سوال کرے کہ ’’پلاٹ‘‘ کیا ہوتا ہے ؟ پلاٹ کا مطلب ہے کہ ڈرامے کے دوران ہونیوالے واقعات کا ایک دوسرے سے منطقی تعلق کیسا ہے ؟ اور اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ جیسے ڈرامہ کے مختلف کرداروں نے باہم سازش کی ہوئی ہو کہ میں جب یہ کروں گا تب تم یوں کرو گے اور ’’یہ کرنے اور پھر ’’یوں‘‘ کرنے میں بڑا ربط چاہئے ہوتا ہے اور ایسا ڈرامہ کامیاب ہوتا ہے۔ ہمارے شاعروں نے بھی لفظ ’’یوں‘‘ کی بنیاد پر بہت ساری شاعری کی ہے۔ میری غزل کا ایک شعر ہے کہ …؎
خاک بسر ہے زندگی‘ بجھنے لگی ہے روشنی
میں نے یہ کب کہا کہ یوں‘ میں نے نہیں کہا کہ یوں
ہمارے معروف اپوزیشن لیڈر عمران خان دھرنا کے بعد یا موجودہ صورتحال کے بعد یہ کہہ رہے ہوں گے کہ میں نے یہ کب کہا کہ یوں‘ میں نے نہیں کہا کہ یوں … عمران خان کو اب ایک ’’ناکام لیڈر‘‘ مستقل طور پر بننے سے پہلے چند باتوں پر غور کر لینا چاہئے کیونکہ پاکستان میں سیاست کے سٹیج پر اب ڈرامے سجتے ہی رہیں گے اور ڈرامہ کے پلاٹ اور کردار نگاری پر غور بھی کرنا پڑتا رہے گا۔ ارسطو نے ڈرامہ کے بارے میں یہ لکھا تھا کہ ڈرامے کے کردار پلاٹ کے تابع ہونا چاہئے جبکہ اسکے برعکس شیکسپیئر کے کردار ڈرامے کے پلاٹ پر حاوی ہوتے تھے اس لئے اسکے کردار ڈراموں سے زیادہ مشہور ہیں۔ ’’پانامہ لیکس‘‘ کے منظر عام آنے کے بعد اور نواز شریف کیلئے کمیشن بنانے کے مطالبہ اور ٹی او آرز کے مراحل کے بعد کے ’’یوں‘‘ ہوا ہے کہ کئی کردار ڈرامہ سے زیادہ مشہور ہو رہے ہیں۔ جن میں پیپلز پارٹی کے کردار خاص طور پر شامل ہیں۔ احتساب کا سارا معاملہ کھٹائی میں چلا جائے اور وہی شب و روز چلتے رہیں جو ملک میں موجود ہیں۔
نہ ترا مزاج بدل سکا ‘ نہ مرا مزاج بدل سکا
وہی تیری خو وہی میری خو نہ یہ شب نئی نہ یہ دن نیا
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی طرح عمران خان بھی کیوں افراد کی قوت کا مظاہرہ کرنے کے باوجود ناکام رہتے ہیں؟ اس بات کا جائزہ ان کی لکھی گئی بائیو گرافی سے بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ انہیں اگر کامیاب ہونا ہے تو چند تلخ باتوں کے ذائقے تو چکھنے پڑیں گے جیسا کہ کسی مرض میں کڑوی اینٹی بائیوٹک کی شکل میں ضروری ہوتا ہے۔ عمران خان کی بائیو گرافی کا نام ہے ’’میں اور میرا پاکستان‘‘ جبکہ کوئی عام تحریر لکھتے ہوئے یہ سوچا جاتا ہے کہ کہانی لفظ ’’میں‘‘ سے نہ شروع ہو تو تاثر اچھا جائے گا کیونکہ ’’میں ‘ میں‘‘ کرنا اچھا نہیں سمجھا جا سکتا۔ خاص طور پر ایک لیڈر تو عوام کا خادم بن کر آتا ہے تو پھر اسے ’’پاکستانی عوام اور عوام کا پاکستان‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرنا چاہئے۔ اسی طرح کتاب میں کئی پیرا گراف میں جہاں عمران خان کی شخصیت کا عکس صف دکھائی دیتا ہے مثلاً لکھتے ہیں’’میں نے اپنی پوری زندگی میں پاکستانیوں کو امریکی اشتعال سے ایسا خوف زدہ ہوتے کبھی نہ دیکھا تھا اور یہ ایک مثال تھی کہ حکمران طبقات کس طرح خوف کا ہتھیار استعمال کر کے لوگوں کو اپنی راہ پر لے آتے ہیں‘‘ اس فقرے میں ایک بات اور بھی سامنے آتی ہے کہ عوام کو اپنے زاویہ پر لانے کیلئے وقتی حالات و واقعات کی آندھی چلانے کا ہتھیار استعمال نہیں کرنا چاہئے‘ کیونکہ وقت کے ساتھ گرد بیٹھ جاتی ہے یا پھر بٹھا دی جاتی ہے۔ جیسے کہ ’’پانامہ لیکس‘‘ کی تیز ہوا میں نواز شریف یا کرپشن کے احتساب سے بڑھ کر ’’استعفے‘‘ کا نعرہ بلند کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کرپشن ہوئی ہے تو احتساب ہونا چاہئے اور احتساب کے نتیجے میں سزا ملنی چاہئے یا پھر فقط حکومت کو گرا دینے کی خواہش ہی کی جا رہی ہے جبکہ یہ خوش آئند صورتحال موجود ہے کہ ملک میں جمہوریت مستحکم ہوئی ہے اور پھر نواز شریف نے عوام کیلئے مہنگائی اور انرجی کے مسائل کے باوجود کچھ ایسے کام کئے ہیں جو دکھائی دے رہے ہیں یعنی وہ کام محض ہوا میں نہیں بلکہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ نواز شریف کے اور انکے اہلخانہ کے احتساب کیلئے اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہوئی مگر اپوزیشن کے تعلق میں ’’منطقی تعلق‘‘ بھی مشکوک تھا اور کردار پلاٹ کے تابع بھی نہیں تھے۔ عمران خان نے اپنی آپ بیتی میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’شاہ ایران‘ افغانستان کے حامد کرزئی‘ ہمارے مشرف اور زرداری بظاہر اپنی قوم کو غلام بنا کر امریکہ کو فائدہ پہنچاتے ہیں لیکن آخری تجزیے میں امریکی عوام کو اس سے نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ پوری قوم امریکہ سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ ‘‘ یعنی قوم کو غلام بنانے والوں میں زرداری بھی شامل ہیں اور امریکہ کو فائدہ پہنچانے والوں میں ان کا نام ہے تو پھر معاملہ تو یہی سامنے آئے گا کہ ’’اختلاف بھی نہیں مگر اتفاق بھی نہیں ہو سکتا‘‘ اور سچی بات تو یہ بھی ہے کہ بے شک ان اجلاسوں سے پیپلز پارٹی تھوڑی بہت نظر آنے لگی ہے۔ عمران خان سیاست کے ڈرامے میں ’’پلاٹ‘‘ پر توجہ نہیں دیتے اور یہ نقطہ بھی نہیں سمجھتے کہ ایک تو واقعات کا منطقی تعلق بنتا ہے کہ نہیں دوسرا مختلف کرداروں نے جو آپس میں ’’یہ‘‘ کرنے کے بعد ’’یوں‘‘ کرنا ہوتا ہے اس میں ربط ہے کہ نہیں کیونکہ سیاست کرکٹ کے کھیل میں فتح مند ہونے کا جنون نہیں ہے بلکہ اس میں وہ فرض نبھانا ہوتا ہے جو عمران خان نے خود لکھا ہے۔ شوکت خانم ہسپتال بنانے کے مرحلے میں عمران خان لکھتے ہیں ’’آغاز کار میرے اندر ویسا جنون نہ تھا جو کبھی کرکٹ کیلئے تھا اور فتح حاصل کرنے کی امنگ نے مجھے بیدار رکھا تھا میں غریبوں کیلئے ہسپتال بنانا چاہتا تھا لیکن یہ تحریک میرے اندر طوفان نہ بنتی تھی۔ بس ایک اخلاقی فرض تھا جس کی جڑیں خود پر گزری بے پناہ اذیت اور توڑ کر رکھ دینے والے درد ناک لمحات کی یادوں میں پیوست تھیں‘‘۔ عمران خان کو اپنے اندر وہی جذبہ بیدار کرنا پڑیگا جس میں جنون نہیں بلکہ ایک ایسا اخلاقی فرض ہو جس میں نواز شریف کے استعفیٰ کیلئے نہیں بلکہ آئندہ الیکشن کی تیاری کا جذبہ دکھائی دے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024