ہندوستان کے خارجہ سیکریٹری ایس جے شنکر رواں ہفتے پاکستان کے دورے پر آئے۔ اپنے دو روزہ دورے کے دوران اُنہوں نے وزیرِ اعظم اور وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں جن میں اہم دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاک بھارت تعلقات میں اُتار چڑھائو ایک معمول کی بات ہے۔ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی نوعیت کے پیشِ نظر کسی بڑی پیش رفت کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔
1998 میں دونوں ممالک کے مابین ایک فریم ورک پر اتفاق ہوا جس کے تحت جامع مذاکرات کا ایک سنجیدہ سلسلہ شروع کیا گیا۔ سابق بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کا 1999 میں دورہ پاکستان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جسے ایک غیر معمولی پیش رفت قرار دیا گیا۔ اُسکے بعد حالات میں ایسی تبدیلیاں آئیں کہ یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ پاکستان نے ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات جن کی بُنیاد برابری اور خلوص پر مبنی ہو مگر بد قسمتی سے اسکے بر عکس ہندوستان نے ہماری امن اور دوستی کی اس خواہش کو ہمیشہ ہماری ایک کمزوری سمجھا ہے۔ پاکستان کا شروع سے ایک موقف رہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کی بُنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جسے حل کئے بغیر نہ دو طرفہ تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر گذشتہ 68 سال سے دونوں ممالک کے مابین ایک حل طلب مسئلہ ہے جس پر اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں موجود ہیں مگر ہندوستان ان سے مسلسل انحراف کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلے پر تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ گذشتہ تین دہائیوں سے ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چُکے ہیں اور لاکھوں بے گھر اور لاپتہ ہیں مگر ہندوستان پر اسکا کوئی اثر نہیں ہوا۔ گذشتہ سال ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں انتہا پسند جماعت بی جے پی کو کامیابی ملی اور ایک اتنہا پسند ہندو لیڈر نریندر مودی وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ منسٹر مودی کا ماضی نہ صرف مسلمان اور پاکستان دُشمنی سے بھرا پڑا ہے بلکہ مذہبی انتہاپسندی اُنکی شخصیت کا خاصہ رہا ہے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم جناب میا ں محمد نواز شریف نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر نئے بھارتی وزیرِ اعظم کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی باوجود اسکے کہ اندرونِ ملک عوام کی ایک اکثریت نے اس پر اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا۔ اس جذبہ خیر سگالی کے موقع پر دونوں وزیرِ اعظم کے مابین ملاقات بھی ہوئی جس میں مذاکرات کی بحالی پر اتفاق بھی کیا گیا۔اسکے برعکس عملاً ہندوستان نے نہ صرف یہ کہ کچھ نہیں کیا بلکہ طے شدہ خارجہ سیکریٹری سطح کے مذاکرات بھی معطل کر دیے اور بہانہ یہ بنایا کہ پاکستانی ہائی کمشنر نے حریت کانفرنس کے رہنمائوں سے ملاقات کی ہے۔ بعد ازاں کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا گیا جو کہ کسی نہ کسی صورت آج بھی جاری ہے۔ اسکے نتیجے میں بہت سا جانی اور مالی نقصان بھی ہوا۔ اس ساری صورتِ حال میں بھی پاکستان نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور امن پر زور دیا۔ در اصل نئی بھارتی قیادت تکبر کا شکار ہے اور خطے میں بالا دستی کی اپنی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے۔ اُسکی اس خواہش کی راہ میں واحد رکاوٹ پاکستان ہی ہے۔ ہمارے اندرونی حالات بالخصوص دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ کا بھی ہندوستان فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے۔ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے حصول کی خاطر وہ سب کُچھ کرنے کو تیار ہے۔ اس تناظر میں بھارتی سیکریٹری خارجہ کے دورے کو ایک خوش آئند قدم تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس سے کو بڑی اُمید نہیں رکھی جا سکتی۔ پاکستان یہ بات واضح کر چکا ہے کہ کسی بھی بات چیت یا مذاکرات کا محور کشمیر ہی ہو گا۔ یہ صرف پاکستان اور بھارت کے مابین ہی ایک مسئلہ نہیں بلکہ کشمیری بھی اس میں ایک اہم فریق ہیں۔ کوئی فیصلہ اُنکی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس زمینی حقیقت کو تسلیم کیے بغیر بات کیسے آگے بڑھ سکتی ہے لہذا اس طرح کے دوروں یا ملاقاتوں کو وقت کا ضیاع یا منافقت ہی کہا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کو علم ہے کہ وہ طاقت کے زور پر پاکستان کو کبھی زیر نہیں کر سکتا لہذا دُنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کی خاطر اس طرح کی بات چیت اور مذاکرات کا ڈھونگ رچا یا جاتا ہے جبکہ اسکے بر عکس زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ ہمیں ہندوستانی حکومت کی منافقانہ اور پاکستان دُشمن پالیسیوں سے انتہائی محتاط رہنا چاہیے اور کم از کم اس سیاسی قیادت سے کسی قسم کی بھلائی کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے۔ ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر امن ہماری خواہش رہنی چاہیے اور بات چیت کے دروازے بھی ہمیشہ کُھلے رکھنے چاہئیں مگر تعلقات کی بُنیاد برابری کی سطح پر ہی ہو سکتی ہے۔ کشمیر ہماری بقا کا مسئلہ ہے اور ہم کسی صورت بھی اس سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔
ہندوستان ہمارا دُشمن ہے اور ہمیشہ رہے گا یہ حقیقت ہر پاکستانی پر واضح ہونی چاہیے اور حکومت کو بھی اس سلسلے میں قوم کی خواہشات اور احساسات کی بھر پور ترجمانی کرنی چاہیے۔افواجِ پاکستان بھی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ بھارت سے بات چیت کا معاملہ ہمیشہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کرنا چاہیے اور کہیں بھی اپنی کمزوری یا گفتگو میں جھول ظاہر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ عوام اور افواجِ پاکستان کا عزم و استقلال کبھی متزلزل نہیں ہو سکتا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38