شاہ سلمان بنفس نفیس موجود۔ شاندار استقبال۔ وزیراعظم کا دورہ سعودیہ گوکہ بہت سارے سوالات لئے ہوئے تھا مگر سب سے اہم دنیا میں گردش کرتی ہوئی کہانیوں میں سے قابل توجہ وہ خبر ہے جو ’’سنی اتحاد‘‘ کے احیاء کی ہے۔ سعودیہ ہمارا قابل فخر‘ مشکل وقت کاساتھی ہے مگر عقل مندی نہیں کہ ہم عالمی سطح پر کسی نئے بلاک کا حصہ بنیں۔ خود کو کسی مخصوص تقسیم میں فٹ کریں۔ ہمیں چاہئے کہ جغرافیائی حدود سے باہر نکل کر کھیلنا بند کر دیں۔ پہلے اپنا گھر ٹھیک کریں۔ اندرونی تنازعات تقسیم ہوتے ملک کی درستگی کی طرف متوجہ ہوں۔ امریکی دبائو پر انڈین سیکرٹری خارجہ تو آپہنچے مگر صورتحال میں کوئی نمایاں تبدیلی یا تعلقات میں مثبت پیش رفت خارج از امکان ہے۔ ملاقات طویل تعطل کا خاتمہ تھا سو دور ہو گیا۔ سیاسی میدان بھی کچھ سرد ہوتا نظر نہیں آتا۔ مختصر اندرونی و بیرونی حالات‘ عوامل‘ سازگار نہیں۔ ’’کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر۔‘‘ چند روزہ بارشوں نے تو دوبارہ سے شاہراتی ترقی کا ڈھول بجا دیا۔ کچی تو پارلیمنٹ کی عمارت بھی نکلی۔ ٹپک پڑی۔ بالکل اسی طرح جس طرح طمع بازوں کی رال ٹپکتی ہے۔ اس لئے بارشوں سے دوستی سودمند نہیں۔ تزویراتی کشمکش‘ عالمی گیم‘ طبقائی جنگ اور قوم پرستی کی تحریک نے ہمارا کافی حد تک قیمہ بنا ڈالا ہے۔ ’’قیمہ‘‘ تو ہمارا سینٹ الیکشن نے بھی بنا دیا۔ پاکستان کی ’’چہیتی جمہوریت‘‘ کا گھنائونا شرمناک ’’میلہ مویشیاں‘‘ اختتام پذیر ہو گیا۔ پندرہ دن پہلے تک ’’نیشنل الیکشن پلان‘‘ پر عمل کروانے کا عزم کرنیوالے ذاتی نیلام گھر کھول کر بیٹھے تو بھول گئے کہ جمہوریت کے حوالے سے قوم میں مایوس کن پیغام چل رہا ہے تو ساتھ میں بلدیاتی الیکشن کے ضمن میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ عدلیہ محترم نے بجا طورپر فرمایا کہ سسٹم نہ ہونے کی بنا پر بچوں کی رجسٹریشن کروانے کیلئے ہزاروں روپے رشوت دینا پڑتی ہے۔ کیا عوام کا کسی کو احساس ہے یا نہیں۔ کیا عوام بھاڑ میں جائیں۔ قارئین بھاڑ نہیں تو عوام قبر میں ضرور جا رہے ہیں۔ رحیم یار خان میں غربت کے ہاتھوں 8 ماہ قبل خودکشی کرنے والے کی بیوہ نے بھی 2 بیٹوں سمیت زہر پی لیا۔ خوش قسمت ہیں حکمران کہ ایک اور بوجھ اتر گیا۔ بوجھ تو کمیٹی نے بھی اتار دیا ۔ ہماری تاریخ کی واحد کمیٹی چند دنوں میں پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تنخواہوں میں100 فیصد اضافہ کی منظوری دیدی۔ کوئی فرق نہیں پڑتا اگر تنخواہ نہ ملنے سے کسی کے گھر کا چولہا بجھ جائے۔ عوام واقعی بھاڑ میں جائیں۔ جب چولہا جلانے کیلئے گیس نہ ملے‘ گاڑی چلانے کیلئے سی این جی نہ دستیاب ہو‘ کوئی فرق نہیں پڑتا جب ’’عالمی غلامی انڈیکس‘‘ خبردار کرے کہ 20 لاکھ پاکستانی جبری غلام ہیں۔ عوام کیلئے یہ تناسب پریشانی کا باعث ہے مگر ریاستی اداروں کیلئے تشویش کا باعث نہیں۔ یہ 20 لاکھ لوگ بھٹہ مالکان کے پیدائشی زرخرید ہیں۔ یہاں ریاستی طاقت مافیاز کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ شاید حکومتی نظم ونسق کارکردگی میں کاہلی‘ سستی کے ہاتھوں گروی ہے کیونکہ بلدیاتی الیکشن کا اعلامیہ پورے ایک سال پر لٹکا نے کا شیڈول پیش کردیا مگر اطمینان نظر نہیں آرہا۔ لوکل گورنمنٹ کا نظام شاید کسی خوش قسمت ہاتھ کا منتظر ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت یہ اعزاز اپنے نصیب میں لکھ ڈالے۔ تاخیربازی سے باز آجائے۔ باز تو ہمیں چین کی اس نصیحت‘ وارننگ سے بھی آجانا چاہئے کہ ’’اقتصادی راہداری‘‘ روٹ تبدیل نہیں ہوگا۔ بہتر ہے کہ بحث ختم کرکے دوستانہ رائے عامہ ہموار کریں۔ یقینا اختلاف ترقی کا دشمن ہے۔ ناسور ہے۔ خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج 15,18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی نوبت نہ آتی۔ دوستانہ مشوروں کو مانا جاتا تو کالاباغ ڈیم سے بھی آج خوشحالی کی لہریں چل رہی ہوتیں۔ قومی منصوبوں کو قبل از وقت بحث میں الجھا کر متنازعہ بنانا کوئی ہم سے سیکھے۔ اقتصادی کوریڈور آبادی والے علاقوں سے گزرے گا۔ نئے جدید اقتصادی علاقے‘ زون تعمیر‘ قائم ہونگے۔ مزیدبرآں 9 ہزار میگاواٹ بجلی گرڈ میں شامل ہو گئی تو کیا برا ہوگا۔ اعتماد محبت کے بغیر دوستی پروان نہیں چڑھ سکتی اور سہولتوں‘ سکیورٹی کے بغیر بیرونی سرمایہ کاری ممکن نہیں۔ سکیورٹی کیلئے ضروری ہے کہ ہم غیر ضروری طورپر خطے اور باہر کی دنیا کے معاملات کا ٹھیکہ اٹھانے کی کوشش ترک کریں۔ کراچی کے مرض کی تشخیص جو ہو چکی ہے‘ دوائی اسکے مطابق دی جائے۔ قومی معاملات سے پولیس تک دبائو‘ اقربا پروری اور سیاست سے آزاد ہونا چاہئے۔ قرضہ لیں‘ تعلقات بڑھائیں مگر اپنی چھت‘ اپنے مکان کی اصل پوزیشن کو سامنے رکھ کر۔ اصل پوزیشن مدنظر رہتی تو نادرا سے بھی غلطیاں در غلطیاں سرزد نہ ہوتیں۔ تازہ کارنامہ بھارتی خاندان کو قومی شناختی کارڈ جاری کر دیئے۔ مشینیں تو جدید فراہم کر دیں مگر استعمال کے جدید ‘ درست اشاریے‘ طریقے‘ غالباً نادرا تک نہیں پہنچے۔ پہنچے تو یقینا لاہور‘ پنڈی‘ فیصل آباد‘ ملتان کے اندرون علاقوں میں 21ویں صدی کی ترقی کے اثرات بھی نہیں۔ چاروں صوبوں کے بڑے شہروںکے اندرون اور ملحقہ علاقوں میں زندگی پتھر کے دور سے بھی بری مسائل میں پھنسی ہوئی ہے۔ اندرونی علاقے ایک صدی پیچھے کی زندگی میں جی رہے ہیں۔ چند منٹ کی بارش 5 سالہ مدت کی حکومتی ترقی کا پول کھول کر سیوریج کا حصہ بنا دیتی ہے نکاسی آب اور برساتی نالوں کی صفائی کو بہتر بنانے کی بجائے ٹوٹی پھوٹی سڑک پر کروڑوں روپے کا بجٹ منظور کرکے چند ہزار کی ریت‘ بجری پھینک کر پیرس بنانے کا دعویٰ دائر کر ڈالتے ہیں۔ ہر سال فنڈز مختص ہوتے ہیں مگر پھر ’’سیلابی علاقوں‘‘ کا سارا بوجھ پاک فوج کے کندھوں پر ڈال کر خود فوٹو شوٹ میں مگن ہر جاتے ہیں۔ مختص تو ہم نے بھی کر دیا۔ پچھلے دنوں ’’فسٹ ویمن تھنک ٹینک‘‘ کی تعارفی تقریب کا اہتمام تھا۔ فیصل آباد شاخ کی طرف سے ہماری کالموں پر مبنی دوسری کتاب ’’لفظوں کی پھوار 2‘‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر ہم نے اعلان کیا کہ کتاب کی فروخت سے ہونے والی آمدنی کا معقول حصہ خیراتی کاموں کیلئے مختص کرتے ہوئے اہل خیر سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی قوم کی بہتری‘ بھلائی اور خوشحالی کیلئے سرگرم عمل محب وطن شخصیات اور اداروں کی دل کھول کر مدد کریں۔ قارئین اہل فیصل آباد نے ہماری موجودگی کا فائدہ اٹھایا کہ قبل از وقت تقریب منا ڈالی اور ہم نے اس موقع سے بھرپور نتائج کے حصول کیلئے راہ خدا میں عاجزی کا تحفہ پیش کر دیا۔ میری اپیل ہے کہ صاحب درد اصحاب‘ دولتمند‘ غریب پرور آگے بڑھیں اور عوامی مسائل کے حل میں حکومتی تعاون حاصل کریں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38