گرمی کی شدت سے خوش مزاج، نرم خو اور معصوم بلاول بھٹو کو بھی غصہ آ گیا ہے۔ بلاول نے کہا ہے کہ تخت رائیونڈ بجلی جاتی نہیں، سندھ میں آتی نہیں۔ میاں صاحب آپ کی حکومت ہے یا عذاب؟؟ بلاول نے کہا کہ اب ملک مزید آپکا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ جے آئی ٹی کی پوچھ گچھ سے آپ کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ بلاول بھٹو کا یہ جملہ نہایت معنی خیز ہے کہ سب جانتے ہیں لوہے اور چوزے کا کاروبار کون کرتا ہے۔ ساتھ ہی چوہدری پرویز الٰہی نے کبھی زبردست فقرہ درست کہا کہ لیپ ٹیپ مافیا، لیپ ٹیپ کمیشن اور لیپ ٹاپ فوبیا نے پورے ملک کو وخت ڈال رکھا ہے۔ جے آئی ٹی کے سامنے پیشی پر حسین نواز نے سر نیچے کر رکھا ہے۔ اس تصویر کو ہمدردی حاصل کرنے کے لئے جاری کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے پیپلز پارٹی، تحریک انصاف ، ایم کیو ایم تو یہ تصویر جاری نہیں کر سکتی۔ سوشل میڈیا نے حسین نواز کی سوٹڈ بوٹڈ تصویر کے مقابلے میں پولیس کی چور کو چھترول کرتے ہوئے تصویر لگائی ہے جس میں تفتیش کے دوران ایک آدمی جس پر کوئی الزام بھی نہیں پولیس نے مک مکاﺅ کے لئے اسے کسی کی جگہ پکڑ کر اتنا مارا پیٹا ہے کہ اسکا لباس بھی تار تار ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس آدمی نے نہایت سستا بلکہ گھٹیا اور میلا سا شلوار قمیض پہن رکھا ہے جو ہمارا قومی لباس ہے جبکہ حسین نواز وزراءکے جلوس اور گاڑیوں کے جلوس میں بارات لیکر ایک دولہا کی طرح آتے ہیں۔ شدید ترین گرمی میں تھری پیس سوٹ پہنا ہوتا ہے۔ اس پر موصوفہ وزیر اطلاعات کا تجاہل عارفہ غور فرمائے۔ کہتی ہیں کہ حسین نواز کی تفتیش کے دوران تصویر لیک کرنا کسی کی شرارت ہے۔ یہ ہتک آمیز طریقہ ہے۔ صدقے جائیے آپکے بھولے پن کے
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
خود تصویر لگاتے ہیں اور بتاتے بھی نہیں
بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ لوہے اور چوزے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ہم نے اس میں تحریف کی ہے کہ چٹنی اور چرب زبانی کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ صحافی ادیب شاعر تحریف کر لیتے ہیں لیکن اس طرح کے لوگوں کے ہر کام میں تخریب ہوتی ہے مثلاً لوہے کا کام کیا تو سٹیل ملز بند کرادی اور پورے ملک کو لوہا سپلائی ہونے لگا۔ چوزوں کا کاروبار شروع ہوا تو اتنے چوزے پیدا کئے گئے کہ شاید بنگلہ دیش اور بھارت میں اتنی مکھیاں اور پاکستان میں اتنے مچھر بھی پیدا نہیں ہوتے ہونگے۔ ان انجکشن زدہ چوزوں کی وجہ سے مرد و زن کے ہارمونز ڈسٹرب ہو رہے ہیں۔ کیا یہ قابل جرم کاروبار نہیں کہ لوگوں کی نسلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ مغربی دنیا کہتی ہے کہ افغانستان اور پاکستان سے جو حشیش چرس افیون مغرب میں سمگل کی جاتی ہے۔ اس سے ہماری نسلوں کی رگوں میں زہر اتر رہا ہے تب کسی پاکستانی مفکر نے کہا کہ اور مغرب سے جو بے حیائی کلچر پاکستان سمگل ہو رہا ہے اس سے ہماری نسلوں کے اخلاق کو قتل کیا جا رہا ہے۔ مغرب سے جو بے حیائی کا کلچر ہمارے نصاب اور تعلیمی اداروں میں منتقل کیا جا رہا ہے اس نے ہماری نئی نسل سے جہاں شرم حیا، اخلاق، لحاظ، رواداری اور پاسداری چھینی ہے وہاں مذہب اور وطنیت سے دور کیا ہے۔ موجودہ نصاب مغرب زدہ ہے جس میں درپردہ اسلام کے خلاف بہت سا مواد ذہنوں اور دلوں میں اتارا جا رہا ہے۔ آج کی نسل میں جذبہ¿ حب الوطنی کا شدید فقدان ہے۔ یہ نصاب پاکستانی ثقافت کا نمائندہ نہیں ہے۔ پنجاب کے تعلیمی بجٹ میں 345 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ صرف لیپ ٹاپ سکیم کے لئے 7 ارب رکھے گئے ہیں۔ 50 کروڑ روپے چینی اور ترکی زبان سیکھنے کے لئے رکھے ہیں۔
مگر اردو زبان کے لئے ایک ٹکا بھی نہیں رکھا گیا ہے۔ یہ تعصب ، تنگ نظری اور قائد کے فرمودات کی کھلی خلاف ورزی نہیں تو اور کیا ہے۔ ایچ ای سی کیلئے 44 ارب 61 کروڑ روپے دیئے گئے ہیں۔ ایچ ای سی کی 45 ارب روپیہ کھا کر بھی کارکردگی زیرو ہے۔ تعلیم کے لئے اتنی کثیر رقم خرچ کر کے بھی نتائج زیرو ہیں۔ CGPA سی جی پی اے تو مختلف ہتھکنڈوں سے حاصل ہو جاتا ہے لیکن طالبعلم کی ذہانت کارکردگی لیاقت اور سیکھنے کا عمل وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ ایچ ای سی کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ سب سے اعلیٰ ڈگری یافتہ یعنی ڈاکٹریٹ کرنے والے کیا کر رہے ہیں یا ان سے کیا کام لیا جا رہا ہے؟؟؟ سولہ سال ماسٹر کرنے میں اور آٹھ نو سال پی ایچ ڈی میں لگا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنیوالے پی ایچ ڈی ہولڈرز کے ساتھ اس ملک میں کیا بھیانک سلوک ہو رہا ہے۔ وہ تمام پی ایچ ڈی ہولڈرز جو سرکاری نوکریاں کر رہے ہیں۔ انہیں ہر ماہ گھر بیٹھے دس ہزار الاﺅنس ملتا ہے۔ انکی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ انکے گریڈ بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ بونس الاﺅسنز اور دیگر مراعات میں بے پناہ اضافہ کر دیا جاتا ہے لیکن وہ لوگ جو پی ایچ ڈی کر کے سرکاری نوکریوں سے بھی محروم ہیں۔ انہیں اول تو اتنی بڑی ڈگری لینے کے بعد بھی اس جاہلانہ سسٹم کی نذر کر دیا جاتا ہے کہ جی آپکا کسی سرکاری سکول، سرکاری کالج یونیورسٹی میں دس پندرہ سال کا تجربہ چاہئے۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے سفارشی، تھکے ہارے، گھسے پٹے میگزینوں میں پی آر شپ کی زور پر لگے ہوئے پانچ دس پندرہ چھپے ہوئے مقالے چاہئیں۔ یہ مقالے بھی تقریباً نقل شدہ ہوتے ہیں مختلف کتابوں سے اقبتاسات کے چوکھٹے cut, copy, paste کر کے لگائے ہوتے ہیں۔ ان میں نہ کوئی انفارمیشن ہوتی ہے نہ ان سے علم میں اضافہ ہوتا ہے نہ ان گھسے پٹے مقالوں میں کوئی تحقیق ہوتی نہ کوئی نظریہ وضع کیا ہوتا نہ ان سے علم کی کوئی شاخ پھوٹتی نہ ان سے حقائق برآمد ہوتے ہیں۔ زیادہ تر مقالے مکھی پہ مکھی مار کر لکھے ہوتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے تمام دس سال کے میگزین اکٹھے کر کے دیکھ لیں۔ ذرا سے رد و بدل سے وہی چیزیں آگے پیچھے کر کے لکھی ہوتی ہیں۔ یہ میگزین بمشکل دو ہزار کی تعداد میں چھپتے ہیں جنہیں دو سو لوگ بھی نہیں پڑھتے۔ زیادہ سے زیادہ دس بیس لوگ یہ مضامین پڑھتے ہیں۔ ان مضامین کی اشاعت اور سفارش پر سرکاری نوکری کرنیوالوں کو پی ایچ ڈی کرنے پر یکلخت 19 ویں گریڈ کی نوکری مل جاتی ہے اور تنخواہ بھی ہو شربا ہوتی ہے لیکن وہ لوگ جو اس جعلساز سسٹم کی پیداوار نہیں ہیں۔ اپنی پرائیویٹ جاب میں نہایت محنت ، عرق ریزی سے پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔ اپنی پرائیویٹ نوکری کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ انہیں سرکاری ٹیچروں کی طرح نہ چھٹیاں ملتیں نہ مراعات اور نہ الاﺅنسز نہ گریڈ۔
سوال یہ ہے کہ ایچ ای سی کو کیا یہ بھی خبر نہیں کہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں کیا استحصال کر رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک خبر کے مطابق بغیر فیکلٹی کے میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں کی بھرمار ہے۔ بغیر کلاسز کے ڈگریاں جاری ہو جاتی ہیں۔ ایچ ای سی اتنے ہیوی بجٹ سے آخر کیا کرتا ہے۔ اسے ہر پی ایچ ڈی ہولڈر کو دس ہزار الاﺅنس دینا چاہئے۔ آخر انکا کیا قصور ہے کہ آپ نوکری بھی نہ دیں اور الاﺅنسز بھی نہیں۔ پھر یہ اربوں روپیہ کہاں جا رہا ہے؟ شہباز شریف تعلیم تعلیم کرتے ہیں۔ یہ ہے ان کی وزارت اعلیٰ کی تعلیم اور اعلیٰ تعلیمیافتہ لوگوں سے بدسلوکی کہ سب کی محنت سے حاصل کی ہوئی تعلیم کو آپ نے چورن چٹنی بنا کر رکھ دیا ہے۔ آپ تو کہتے کہ پنجاب تعلیم میں سب سے آگے ہے۔ مڈل میٹرک انٹر کے بچوں کو لیپ ٹاپ، انعامات، رقوم اور غیر ملکی دورے کراتے ہیں لیکن اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کے ساتھ امتیازی اور ناروا سلوک کرتے ہیں حالانکہ یہ اعلیٰ دفاع آپ کو بیش بہا فائدے پہنچا سکتے ہیں۔ آپ کے بازو بن سکتے ہیں۔ اگر اب بھی آپ نے ہمارے کچھ نہیں کیا تو ثابت ہو جائے گا کہ ن لیگ چرب زبانی کا کاروبار ہی پسند کرتی ہے اور صرف خوشامدیوں و نوازتی ہے۔ میرٹ محض ڈرامہ ہے اب یہ ثابت کرنا وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا کام ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38