برطانوی پاکستانی ہی متفکر اور تشویش میں مبتلا نہیں، پرانی وضع کے وہ گورے جنہوں نے قیام پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر قریب سے دیکھا ہے۔ بڑے عجیب و غریب، مشکل اور گہرے سوال پوچھ رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں پڑھے لکھے طبقہ کی 70 فیصد تعداد ملکی اور غیر ملکی سیاسی تجزیوں، حالات حاضرہ اور تحقیقاتی نیوز میں حقائق تلاش کرنے کے لئے چونکہ BBC کی نشریات کو ہی قابل اعتبار تصور کرتی ہے اس لئے پاکستان کے حوالے سے نشر ہونے والی کوئی خبر یا سکرین پر دکھائی جانے والی کسی بھی ڈاکومینٹری کو حکومتی حلقوں میں آج بھی معتبر اور متناسب سمجھا جاتا ہے۔ افواج پاکستان کے کامیاب آپریشن ضرب عضب اور کراچی میں رینجرز کی دہشت گردوں، ملک دشمن عناصر سہولت کاروں اور بھارتی را کے ایجنٹوں کے خلاف کی گئی اب تک کی کارروائی سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس گھر کو آگ گھر کے چراغوں سے ہی لگائی گئی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ہمارے نشریاتی ادارے یہ کام نہ کر پاتے مگر اگلے روز BBC نے 1 گھنٹے سے زائد چلائی اپنی ڈاکومنٹری میں یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان میں ایم کیو ایم اور بھارتی را کی مبینہ کارروائیاں ملکی سلامتی کے خلاف ہیں جس برطانوی رپورٹر نے متحد کے را سے تعلقات کے حوالہ سے یہ رپورٹ پیش کی اس کا کہنا ہے کہ اسے اپنے با خبر پاکستانی ذرائع پر مکمل اعتماد ہی نہیں بلکہ اس خبر کے ایک ایک لفظ پر بھی وہ قائم ہے۔
صحافی BANNAT JONES کا جو پاکستان کے ایک انگریزی اخبار میں ہفتہ وار کالم بھی لکھتے ہیں کہنا ہے کہ ان کے زیادہ تر کالم اسلام انتہا پسندی اور جہاد کے بارے میں ہوتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ لندن میں ایم کیو ایم کی سرگرمیاں پاکستانی صحافیوں کے لئے بھی خاص اہمیت کی حامل ہیں۔
بی بی سی کی اس ڈاکومنٹری میں متحدہ کے حوالہ سے اور بھی بہت کچھ شامل ہے مگر …… رابطہ کمیٹی نے برطانوی نشریاتی ادارے کی اس رپورٹ میں متحدہ پر لگائے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ایم کیو ایم ایک محب وطن سیاسی جماعت ہے جس پر ماضی میں اسی نوعیت کے الزامات لگائے جا چکے ہیں کمیٹی کا کہنا ہے کہ بی بی سی کی یہ رپورٹ جس صحافی نے تیار کی پہلی بات تو یہ کہ وہ صحافت بی بی سی کا نمائندہ اور نہ ہی اس ادارے کا ملازم ہے۔ البتہ وہ فری لانس صحافی کے طور پر ایم کیو ایم کے خلاف ماضی میں بھی درجنوں خبریں نشر کر چکا ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر چونکہ ذریعہ پاکستانی حکام کو ظاہر کیا گیا ہے جبکہ یہ رپورٹ برطانوی حکام کی نہیں اس لئے دروغ گوئی پہ مبنی اس رپورٹ کی رابطہ کمیٹی مذمت کرتی ہے۔
ایم کیو ایم کے کارکنوں پر را کے ایجنٹ ہونے کا سب سے پہلے مبینہ الزام لگانے والے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس رائو انوار نے جو اب سابق ہو چکے ہیں بی بی سی کی رپورٹ کو حقائق پہ مبنی قرار دیتے ہوئے اپنے سابق موقف کی فتح قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے دہشت گرد کارکنان کے بارے میں وہ آج بھی اپنی اس بات پر قائم ہیں کہ ان کارکنوں نے بھارت میں تربیت حاصل کی۔
دوسری جانب الطاف حسین لندن میں حلفاََ یہ کہتے ہیں کہ بھارتی را سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی دوستی! تو ایک عام محب وطن پاکستانی کے دماغ میں کئی طرح کے سوال اٹھنے لگتے ہیں۔
ایک طرف تو وہ را سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری جانب اپنی تقاریر میں وہ اس بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی سے مدد اور معاونت لے کر دریائے سندھ میں خون بہانے کی باتیں کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام تر مقدمات کی پیروی چونکہ اب لندن میں کی جا رہی ہے، طارق میر اور محمد انور لندن پولیس اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سامنے چونکہ یہ اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ انہوں نے نے بھارتی حکومت سے فنڈز حاصل کئے۔ اس لئے ایم کیو ایم پر دبائو یقینی طور پر بڑھ چکا ہے۔ الطاف حسین بھی بخوبی جانتے ہیں کہ سکاٹ لینڈ یارڈ دنیا کی ایک اعلیٰ شہرت رکھنے والی تحقیقاتی پولیس ہے جو اپنے اختیارات میں کلی طور پر آزاد اور خود مختار ہے۔ ملزمان کے اعتراف کے بعد دنیا کی کوئی طاقت برطانوی پولیس کے فیصلے تو تبدیل نہیں کر سکتی۔ دوسری طرف عمران فاروق قتل کیس کے سلسلہ میں جہاں بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے وہاں ایک پاکستانی تفتیشی افسر بھی اپنی رپورٹ لے کر واپس اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ اس اعلیٰ افسر کے اس دورہ سے سکاٹ لینڈ کی تفتیش کا دائرہ کار مزید بڑھ گیا ہے میرے ذرائع کے مطابق قتل میں ملوث ملزم معظم اور دیگر ملزموں کے بیانات سکاٹ یارڈ کی تحقیقاتی ٹیم کو دیئے جا چکے ہیں۔ یاد رہے کہ الطاف حسین کو جن مقدمات کا سامنا ہے ان کی سماعت چند ہفتے تک متوقع ہے اسلئے تمام تر واقعات اور حقائق کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا اب مشکل نہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ پر سخت ترین بھاری وقت کا آغاز ہو چکا ہے۔
اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ 1990 کی دہائی اورآج کے 2015 میں بہت فرق ہے حکومت پاکستان کو جو کام بہت پہلے کرنا چاہیے تھا اسے آج انتہائی عجلت میں کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم ایک بڑی سیاسی جماعت ہے جس کا اپنا ایک وسیع ووٹ بنک بھی ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اسی ایم کیو ایم میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جنہوں نے الطاف حسین اور رابطہ کمیٹی کو انتہائی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔
لندن میں یہ خبریں بھی عام ہیں کہ ایم کیو ایم کو زندہ رکھنے کے لئے الطاف حسین کو قیادت سے دستبردار ہونا اب ناگزیر ہوگا جبکہ الطاف حسین سب کچھ جانتے، دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی اس بات پر بضد ہیں کہ قیادت سے انہیں اگر ہٹایا گیا تو گلی اور کوچوں میں جنگ ہوگی یہ سوچ ان کی کہاں تک مثبت ہے اس کا فیصلہ اب رابطہ کمیٹی کو کرنا ہوگا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38