ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستانی’’ 100 ارب‘‘ سے زائد زکوٰۃ ۔صدقہ۔خیرات کی مد میں بانٹ دیتے ہیں۔ کچھ سال پہلے یہ مد ’’75ارب روپیہ‘‘ تھی۔ پاکستانی قوم بہت دلیر ہے۔ خیرات، صدقات میں اِس کی فیاضی ۔غریبوں سے ہمدردی کی سینکٹروں قابل تقلید مثالیں ہیں۔ لمحہ موجود میں شاید ہی کوئی گھر ہو گا جہاں کوئی خیر کا کام نہ چل رہا ہو۔ بے شمار ’’نام‘‘ ہیں۔ جو خیرو برکت کی شاخیں اُگاتے نظر آتے ہیں۔ قریہ قریہ ۔ پیشہ وارانہ تعلیم کے ادارے ۔مراکز مصروف کار دِکھائی دیں گے۔ جو غریب ہنر مند بچوں ۔بچیوں کو فنی تعلیم سے آراستہ کر کے اُن کوپائوں پر کھڑا کرنے کی سعی میں مگن ہیں۔ پاکستانی قوم سارا سال صدقہ خیرات بانٹتی دکھائی دیتی ہے۔ خصوصاً رمضان المبارک کے پُر سعادت مہینہ میں تو سخاوت کی فراوانی نظر آتی ہے۔ شہر کے مختلف رہا ئشی علاقوں سے گزرنے کا جب بھی اتفاق ہوا۔ کئی گھروں کے آگے غرباء کی کثیر تعداد قطارباندھے ۔کِسی اُمید میں کھڑی نظر آتی ہے۔ یہ مناظر ’’اسلام آباد‘‘ میں قیام کے دوران بھی بارہا دیکھنے کو مِلتے تھے۔۔ آفرین ہے اُن لوگوں پر جو دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ ہزار درجہ ہم سے بہتر ہیں جو دوسرے ہاتھ سے چُھپا کر تقسیم کرتے ہیں اور تشہیر کے قریب بھی نہیں جاتے۔ مالی سخاوت کے علاوہ دانشورانہ سخاوت کی بھی ہمارے ہاں کمی نہیں۔ اِسی ضمن میں ہمارے ’’ڈاکٹر اجمل نیازی بھائی‘‘ ہر سال زکوٰۃ ادا کر تے ہیں اور خوب فیاضی سے کیا خوبصورت انداز میں مختلف اداروں کے متعلق متاثر کُن پیرائے میں اِس طرح ترجمانی کرتے ہیں کہ جس دن ’’کالم ‘‘ چھپتا ہے۔عطیات کا تانتا بند ھ جاتا ہے۔ پاکستان واقعی سخی لوگوں کا ملک ہے۔ حالیہ دِنوں میں ’’این جی اوز‘‘ کے متعلق بہت کچھ پڑھنے ۔سننے کو ملا ۔ممکن نہیں کہ بیان کردہ کہانی سو فیصد درست ہو۔ بہرحال حقائق میں کافی حد تک سچائی ہے۔ بہت سارے ادارے جہاں ضرورت مندوں کی دستگیری کا بیڑہ اُٹھائے ہوئے ہیں۔ وہاں اکثریت اُن ’’بیگمات این جی اوز‘‘ کی ہے۔ جو سرکاری اہلکاروں کے افراد خانہ چلا رہے ہیں۔ اس لیے بھی پاکستانی معاشرہ میں ’’این جی اوز‘‘ کھمبیوں کی طرح اُگیں۔۔ عوام کی سادہ لوحی نے ایسے عناصر کو تقویت بہم پہنچائی ۔ نیکی اور خدمت کے کاموں میں پاکستانی قوم ایک قابل رشک تاریخ رکھتی ہے تو دوسری طرف سخاوت میں ہماری حکومت بھی کِسی سے پیچھے نہیں۔۔’’پنجاب حکومت‘‘ نے ’’شہر خموشاں‘‘کے عنوان سے ایک نیا پرو جیکٹ تیار کیا ہے۔ جس کے تحت نادار لوگوں کے کفن دفن کا انتظام حکومت کرے گی۔۔ لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے ہاتھوں ستائے لوگوں کو مبارک ہو کہ جینا اگر آرام دہ نہیں تھا۔مرنا تو آسان ہوا۔ کنجوسی ہوگی اگر ہم سخاوت کی ڈکشنری میں چند مزید صفات کااضافہ نہ کر سکیں۔ پاکستان اپنی تاریخ کے ایک دشوار سفر کے حالیہ موڑ پر جن مددگار عوامل۔ ساز گار ماحول۔ سہولت کار عناصر کی مدد۔اعانت سے پہنچا ہے۔ پُورا احوال کِسی کی نظر سے پو شیدہ نہیں۔ معاشرے کے فرد سے خود ’’ظالم تاریخ‘‘ تک حادثات ۔واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ بے حسی ۔وطن فروشی ۔غفلت (دانستہ یا غیر دانستہ غفلت بہرحال جُرم ہے) کی ہزاروں داستانیں کہ سُن سُن کر ’’کان‘‘ زخم بن گئے۔ مگر ’’ذِمہ داری‘‘ کی سماعت کمزور یا بے حسی کی سخاوت کی انتہا کہ جُوں تک نہیں رینگی۔ حساس قومی معاملات سے صرف نظر کی لا تعداد کہا نیاں زیر سماعت ہیں۔ مالی کرپشن۔ زمینوں پر قبضے۔ بد انتظامی۔ غفلت کے درجن ہا کیس چل تو رہے ہیں مگر مرتکب عناصر کے خلاف کارروائی ہوتی نظر نہیں آر ہی۔ ’’ٹیکسلا‘‘ کی سب سے بڑی انڈسٹری کی نجکاری ایک ’’گھوسٹ کمپنی‘‘ کو کر دی گئی۔کِسی نے نوٹس نہیں لیا کیونکہ یہ قوم واقعی غریب پرور ہے جو ’’ ہزاروں اراکین‘‘ کے کچن۔ نان و نفقہ کا بھرپور شاہانہ نظام چلا رہی ہے۔ ’’5 کروڑ آبادی‘‘ کے شہر میں سینکڑوں لوگ موت نے اُچک لیے ہے۔ بے وسیلہ افراد سڑکوں پر گلتے۔ سڑتے رہے۔ دیگر عوامل کے علاوہ دوست ملک سے ملنے والی ’’دو درجن ایمبولینسیں‘‘۔ ٹیکسیاں بنا کر ’’ مال روٹی‘‘ کمانے کے مشن پر لگا دی گئی تھیں آخر پیٹ کا دوزخ بھی تو بھرنا تھا اور ’’سخی‘‘ تو ہم ہیں ہی ۔اِتنی بڑی آبادی کے لیے صرف ’’۴ ہسپتال‘‘ ۔اُوپر سے نہ تدفین کے لیے جگہ دستیاب تھی نہ محفوظ رکھنے لیے’’ مردہ خانے‘‘۔۔ وہ شہر کہ جس کے لوگوں کی اکثریت پاکستان بھر سے زیادہ سخاوت کرتی ہے۔ جہاں مذہبی ایام کو نہایت تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ یہ کسی دُور افتادہ سرحدی گائوں یااندرونِ شہر کے نظر انداز علاقے کا قصہ نہیں۔ ہم’’کراچی‘‘ کا احوال لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کا ’’دل اقتصادی حب‘‘۔غریب پروری میں سب سے آگے مگر حالیہ گرمی کی خونی لہر نے دولفظوں میں کہانی مُکا دی۔ ’’سائیں!کراچی میں اتنی ہلاکتیں کیوں ہوئیں؟ ’’ سر‘‘ سارا قصورکے الیکڑک کا ہے۔ ’’ نہ سوال کرنے والا غیر ملکی مہمان تھا۔ نہ جواب دینے والا بے اختیار ۔حقائق سے لا علم۔سارا بوجھ دوسروں کے کندھوں پر ڈالنے کی روایتی سخاوت کا مظہر جُملہ بازی کا منظر۔ زلزلے، قحط، طوفان ’’آسمانی احکام‘‘ کے پابند ہیں۔ ہاں گرمی اور بارشوں (بے وقت کے علاوہ) کا ایک مخصوص ٹائم فریم ہے مگر غیر معمولی صورتحال سے نِمٹنے کی ذِمہ داری تو ’’سرکار ‘‘ کی ہے۔ مگر ’’سخی قوم کے غافل حکمران‘‘۔۔ موت کے سفاک حملہ کے بعد قوم کو ایک اور ’’وبا‘‘ کا سامناہے۔یہ ’’آسمانی‘‘ نہیں زمینی آفت ہے۔ ’’لوگوں کے کھڑے کھڑے گِر کر مرنے سے اُٹھانے۔تدفین تک کوئی نہیں آیا جب واویلا مچا۔ہاہا ہوئی تو اب ہسپتالوں میں ’’فوٹو سیشن کا عذاب قوم بُھگت رہی ہے۔ ہماری سخاوت کے دریا اندرون ِ پاکستان ہی نہیں بہتے۔ سرحد ُجڑے ہمسائے بھی اِس دریا دلی میں ’’ ڈبکیاں‘‘ لگاتے رہتے ہیں۔ اک چھوٹا سا ملک۔ ہمارے احسانوں تلے دبا ہوا۔ وہ ہمارے سفیر کو طلب کر کے احتجاج کرتا ہے۔ کہ ہم اُس کی سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ایک دن پہلے ’’انگور اڈہ‘‘ افغان حرُیت کا نشانہ بنا۔ پاکستانی اہلکار افغان بھائیوں کی دوستی کی زد میں آکر زخمی ہوئے اور ہماری سخاوت ملاحظہ فرمائیں کہ مذمت میں ایک لفظ بھی کِسی کونے سے برآمد نہیں ہوا۔ اُلٹا ہم کو ہی طلب کرکے چارج شیٹ تھما دی۔ دوسری طرف غلطی سے سرحد پار کرنے پر ’’انڈین فورسز‘‘ نے ایک پاکستانی کی آنکھیں نکال دیں۔ خبر چلتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی میں انڈین کردار کے شواہد ’’اقوام متحدہ‘‘ کو دے رہا ہے۔ ’’امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر ‘‘کا دورہ اِس کڑی کے سلسلہ میں جوڑا گیا۔ قوم کو کچھ تسلی ہوئی مگر ہم ’’ سخی دشمناں‘‘ کہ نہیں ہمارا آنے کا مقصد تو وزیراعظم کے متوقع دورے کی تیاری ہے۔ سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔’’اعلیٰ عدلیہ‘‘ کی پکار کِسی کو سُنائی نہیں دی کہ ’’دہشتگردی کا واویلا کیا جارہا ہے مگر اس کے لیے آنے والا پیسہ نہیں روکا جا رہا۔ آکسیجن بند ہو گی تو آفت کا دم نکلے گا۔ مگر اِدھر معاملہ بھی خاصا سخی دوست ہے۔دعا ہے کہ پاکستان میں سخاوت کی یہ صفات ختم ہو جائے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024