شہزادے کو عجیب و غریب کام کرنے کا شوق تو پہلے ہی تھا، لیکن 2009ء میں شہزادے کو اُڑن محل بنانے کا خیال آیا تو بڑی بڑی کمپنیوں کیلئے یہ اچھوتا خیال تھا۔ شہزادے نے دنیا کی سب سے بڑی جہاز ساز کمپنی کواپنا تخیل سنایا اور اُڑن محل بنانے کا آرڈر دے دیا،یہ اُڑن محل تین سال بعد 2012ء میں تیار ہوکر سامنے آیا۔ اِس اُڑن محل میںمیٹنگ روم‘ بینکوئٹ ہال‘شاہی استراحت کیلئے پانچ کمرے اور نماز پڑھنے کیلئے مخصوص جگہ کے علاوہ شہزادے کے پچیس معاونین کیلئے ایک بڑا آرام دہ کمرہ بھی بنایا گیا،اس محل میں دوران پرواز قبلے کی سمت بتانے کے خصوصی الیکٹرانک آلات نصب کیے گئے۔ دو منزلوں پر مشتمل اس اُڑن محل کی بالائی منزل تک پہنچنے کیلئے ایک جدید ترین لفٹ بھی لگائی گئی۔ اس محل میں شہزادے کی ذاتی رولز رائس کار کے لئے الگ سے پارکنگ بھی موجود رکھی گئی،اس محل میں موجود فرنیچر سے لے کر کٹلری تک ہر ایک چیز سونے کی بنی ہوئی ہے۔ اس محل کیلئے پردوں، سیٹوں کے کشن اور بستر کی چادروں پر سونے کی تاروں سے انتہائی نفیس کام کیا گیا۔ یہ اُڑن محل دراصل ’’سپر جمبو‘‘ ایئر بس A 380 ہے، اس جہاز کی تیاری پر کتنی محنت کی گئی ہوگی؟ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ 2009ء میں کمپنی کو دنیا کی مختلف کھرب پتی شخصیات کی جانب سے اِس طرح کے دو سو جہاز بنانے کا آرڈر ملا، لیکن کمپنی اب تک صرف چودہ طیارے ہی فراہم کرسکی ہے۔ شہزادے کے ذاتی استعمال کیلئے تیار ہونے والا یہ دنیا کا سب سے مہنگا ترین جہاز ہے، جو عموما تین سو ملین ڈالر میں مل جاتا ہے، لیکن شہزادے نے اِسے ایئربس سے حقیقت میں اُڑن محل میں تبدیل کرادیا، جس کی وجہ سے اس کی مالیت پانچ سو ملین ڈالرز سے بھی بڑھ گئی۔
عام طور پر اس ایئربس پر کم سے کم 600 مسافر سفر کر سکتے ہیںاور بیک وقت چار انجن کام کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ طیارہ نو سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بغیر رُکے ہانگ کانگ سے امریکی ریاست پوسٹن تک ایک ہی مرحلے میں سفر مکمل کر سکتا ہے۔دنیا میں اس وقت صرف 4 ایسی فضائی کمپنیاں ہیں جو اِس قیمتی جہاز کا استعمال کررہی ہیں، ان کمپنیوں میں ایک شہزادے کی کمپنی ’’کنگڈم ہولڈنگ کمپنی‘‘ بھی ہے ۔ یہ شہزادہ کوئی اور نہیں بلکہ دنیا کا سب سے امیر ترین سعودی شہزادہ ولید بن طلال بن عبدالعزیز ہے۔ولید بن طلال اس وقت مذکورہ ‘‘ اڑن محل ‘‘ کے علاوہ تین ہوائی جہازوں، بوئینگ747 ایئر بس 321 اور ہاکر 125 سیڈلی، دو ہیلی کاپٹروں، انتہائی مہنگی قسم کی گاڑیوں اور بڑے تفریحی بحری جہاز کے بھی مالک ہیں۔ یہ گاڑیاں اور جہاز تو ولید بن طلال کی دولت کی محض ایک جھلک ہے ، حقیقت میں شہزادہ ولید بن طلال آل سعود خاندان کے سب سے مالدار شہزادہ ہیں جس کی ذاتی دولت بتیس ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔
دولت کمانا بری بات نہیں،دولت کمانا انسانی جبلت میں شامل ہے ، انسان ساری عمر دولت کماتا ہے اور خوب کماتا ہے، حتیٰ کہ انسان اتنی دولت کمالیتا ہے کہ پھر اُسے دولت کا شمار کرنے کیلئے بھی دوسروں کا ’’محتاج‘‘ ہونا پڑتا ہے۔ پیدائشی شہزادہ ولید بن طلال کے برعکس دوسری جانب پاکستان میں پیپلز پارٹی کا سربراہ شاہی خاندان اور اِس خاندان کے حواری ہیں کہ عام آدمی کی طرح اپنی زندگی کا آغاز کرنے کے باوجود اب یہ عامیوں سے تعلق رکھنے کے بجائے خاص الخواص بن چکے ہیں اور خاص بھی ایسے کہ جو پیپلز پارٹی کبھی غریب کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ لگاکر پہلے وجود اور پھر اقتدار میں آئی، اپنے چار ادوار میں اب غریب کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھیننے کا باعث بن چکی ہے، غریبوں کے برعکس پیپلز پارٹی کے مصاحبین اور وزراء کا ایک ٹولہ ہے کہ اُن کی لوٹی ہوئی دولت کا کوئی انت ہے نہ کوئی شمار ہے!کہیں اِن ’’جیالے‘‘ وزراء کے گھروں سے اکٹھے دو دو ارب روپے کی نقدی ملتی ہے تو کہیں اِن کے لاکرز میں پڑے اربوں روپے کے کرنسی نوٹ جل کر راکھ ہوجائیں تو اِنہیں پھر بھی کوئی پروا یا پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ اِن کی دولت کی حد تو یہ ہے کہ اربوں روپے کی کرنسی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کیلئے بھی اِنہیں ’’لانچوں‘‘ کی ضروت پیش آتی ہے۔اور تو اور عام لوگوں سے ہی رقم لوٹ کر اتنا بھی نہیں کیا جارہا کہ غریبوں کیلئے دو وقت کی روٹی جتنی رقم ہی چھوڑ دی جائے۔احتساب کرنے والے ادارے اگر مکمل غیر جانبداری کے ساتھ تحقیق کریں تو ایسی ایسی ہوشربا کہانیاں سامنے آئیں گی کہ لوگ دیوانوں کی طرح اپنے گریباں چاک کرکے گلیوں میں نکل آئیں گے۔ سندھ میں رینجرز کے حالیہ چھاپوں میں ’’عجب کرپشن کی جو غضب کہانیاں‘‘ سامنے آئی ہیں وہ تو بدعنوانی کی اِس دیگ کے محض چند دانے ہیں، جنہیں چکھ کر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اس دیگ کا ایک ایک دانہ غریب اور عام آدمی کے لہو میں کیسے بھیگا ہوا ہے!مسلسل لٹنے والے غریب تو ابھی تک جان ہی نہیں پائے کہ اُن کے ساتھ بالخصوص گزشتہ تین دہائیوں کھیل کیا کھیلا جاتا رہا ہے؟
فاربز کے مطابق دنیا کے پہلے سو امیر ترین افراد میں سے تمام افراد وہ ہیں، جنہیں یہ دولت کسی وراثت یا ترکے میں نہیں ملی تھی بلکہ انہوں نے یہ اربوں کھربوں ڈالراپنی عمر بھر کی محنت اور ریاضت سے کمائے، شہزادہ ولید بن طلال کی اِس بے بہا دولت کی بھی یہی ’’خوبی‘‘ہے کہ سعودی شہزادہ ہونے کے باوجود یہ دولت اُنہیں وراثت میں نہیں ملی بلکہ 1979ء میں بزنس میں آنے کے بعد شہزادہ ولید بن طلال نے یہ ساری دولت اپنی محنت سے کمائی۔ مکمل شاہانہ اور انتہائی پرتعیش زندگی گزارنے کی وجہ سے تو دنیا بھر میں شہزادہ ولید بن طلال کی مثالیں دی ہی جاتی تھیں لیکن گزشتہ ہفتے شہزادہ ولید بن طلال نے بتیس ارب ڈالر کی اپنی ساری دولت خیرات کرنے کا اعلان کیا تو ہر کوئی دانتوں میں انگلیاں دبانے پر مجبور ہوگیا۔افسوس! فاربز میگزین صرف ایسی دولت اور اثاثوں کا شمار رکھتا ہے، جو ڈیکلیئر ہوں، ورنہ اگر فاربز میگزین لوٹی ہوئی دولت سے دنیا کے دولت مند افراد کی فہرست مرتب کرتا تو یقینا پہلے ٹاپ ٹین امیر افراد کا تعلق پاکستان سے ہی ہوتا اور اُن میں سے اکثر پیپلز پارٹی کے سابق وزراء ہوتے!
قارئین کرام!! اپنی محنت شاقہ سے بتیس ارب ڈالر کمانے والے شہزادہ ولید بن طلال کی جانب سے ساری دولت غریبوں کیلئے وقف کرنے کا فیصلہ بالخصوص اُن لوگوں کیلئے دھچکا ہے ثابت ہوا ہے جنہوں نے لوگوں کا لہو نچور کر اُس میں سے ڈالر، پونڈ، ریال، دینار اور روپے کشید کیے اور پھر اُس رقم پر سانپ بن کر بیٹھ گئے۔شہزادے کے فیصلے پر مورخ یقینا لکھے گا کہ ابن طلال نے گزشتہ چار دہائیوں میں جو دولت کمائی وہ غریبوں کے نام کرکے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہنے کا ایسا سودا کیا جس میں ’’فائدہ ہی فائدہ‘‘ تھا، لیکن دوسری جانب تاریخ اِس پر بھی یقینا خاموش نہیں رہے گی کہ ’’ابن حاکم‘‘ اور اُس کے حواریوں نے تین دہائیوں میں پاکستان میں لوٹ کھسوٹ کرکے گھاٹے کا ایسا سودا کیا کہ اب پیپلز پارٹی کے جنازے کو کندھا دینے والے بھی ایک ایک کرکے کھسکتے جارہے ہیں، ایسے میں پیپلز پارٹی کے مزار پر کوئی چراغ کیا جلائے گا!
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024