آج ہی کچھ تعمیراتی پتھر خریدنے کیلئے باجوہ روڈ جانا ہوا تو ماضی کا ایک ایک ورق آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔یہاں ایک ڈاکٹر باجوہ ہوا کرتے تھے۔تب تک میں میونسپل کارپوریشن کے قائم کردہ ایک پرائمری سکول کی برانچ نمبر4میں پڑھتا تھا۔یہ سکول گوجرانوالہ شہر میںشیرانوالہ باغ کے عقب اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے باپ کی سمادھی کے پہلو میں واقع تھا۔رنجیت سنگھ کی جائے پیدائش بھی یہاں قریب ہی سبزی منڈی میں تھی۔اسی سکول کے عقب میں ایک کشادہ گلی تھی جس میں ڈاکٹر باجوہ کا ایک چھوٹا سا بلکہ بہت چھوٹا سا میڈیکل سٹور تھا،جہاں عام طور پر دوائیاں کم ہی دستیاب ہوتیں۔سکول کے ساتھ ہی اباجی کاکاروبار تھا،اس ہمسائیگی کی وجہ سے دونوںکی بڑی دوستی ،محبت اور قربت تھی۔میں پرائمری سکول سے نکل کر پہلے مڈل اور پھر اے ڈی ماڈل ہائی سکول میں آگیا۔میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹائون میں داخلہ لیا ہی تھا کہ فضاء میں چاروں جانب سیاسی جماعتوں کے نعرے ،منشوراور پرچم لہرا رہے تھے۔ مغربی پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں چونکہ پیپلز پارٹی کی قوت زیادہ تھی اس لئے ہر طرف اسی کے پرچم نظر آتے،کچھ اس پرچم کے تینوں رنگ بھی اتنے شوخ تھے کہ کسی محلے یاگائوں کیلئے ایک ہی جھنڈا کافی ہوتا۔افسوس کہ اب اس پرچم میں وہ شوخیاں رہیں اور نہ پارٹی میں۔ ڈاکٹر صاحب اکثر وبیشتر اپنے سٹور کے قریب ہی سیالکوٹی دروازے کے اندر واقع پیپلز پارٹی کے دفتر میں نظر آتے، جہاں عام آدمیوں کا ایک جھمگٹا سا رہتا۔ میں نے شیرانوالہ باغ میں پیپلز پارٹی کا ایک ایسا ابتدائی جلسہ عام بھی دیکھا جس میں پچاس ہزار سے زائد لوگ ہوں گے ، مگر نہ کوئی صدر جلسہ، نہ کوئی مہمان خصوصی، حتیٰ کہ سٹیج سیکرٹری بھی کوئی نہیں۔ باغ میں لوگ جمع ہیں اور سٹیج پر لائوڈ سپیکر کا ایک مائیک موجود تو ہے مگرکرسی اور میز موجود نہیں۔ بس جس کا جو جی میں آتا مائیک پر آ کر پہلے اپنا تعارف کراتا ہے اور پھر تقریر شروع کردیتا ہے۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، کارخانہ داروں، سیٹھوں اور سناروں تک کے خلاف۔ سناروں کے خلاف کیوں، اس بات کی کبھی سمجھ نہ آسکی مگر ہرکسی کی تان مولوی پر آکر ٹوٹتی ہے کہ وہ روٹی کپڑا اور مکان کا دشمن ہے۔ سٹیج پر ایک شاعر بھی آیا جس نے اپنا تعارف"شاعر بے لگام"کے طور پر کرایا اور اپنے تخلص کی طرح ہی ایک پنجابی نظم غریبوں کی حمائت میں اور مولویوں کے خلاف پیش کرکے خود ہی سٹیج سے رخصت ہوگیا۔ اس جلسے کیلئے پیپلز پارٹی کے ایک جیالے نے شہر میں لائوڈ سپیکر پر منادی کی ،ذرا اعلان ملاحظہ فرمائیں کہ حضرات آج دوپہر شیرانوالہ باغ میں "پیپل" پارٹی کا جلسئہ ہوگا۔جس میں بابا فاضل ،قصائی فاضل (لالہ فاضل مرحوم) وحید اڈولا اور میں خطاب فرمائیں گے ۔ایسے ایسے مضحکہ خیز سیاسی مناظر صرف پیپلز پارٹی کے ہاں ہی دیکھنے کو ملتے۔مخالف جماعتیں خاص طور پر مذہبی لوگ جی بھر کے ان پر طنز کرتے اور مذاق اڑاتے۔ڈاکٹر باجوہ کو قومی اسمبلی کیلئے محض خانہ پری کے طور پر ٹکٹ دے دیا گیا۔وہ پیپلز پارٹی سے مخلص تو بہت تھے مگر ٹکٹ کی کبھی آرزو نہ کی کہ حالات ہی اجازت نہ دیتے تھے اور نہ کوئی ایساچھوٹا موٹا تجربہ ہی تھا۔اب گوجرانوالہ کے اس نواحی حلقہ سے مسلم لیگ (کونسل) کے چوہدری ظفر اللہ خاں بٹر۔مسلم لیگ کنوینشن کے دو مرتبہ ایم ۔این ۔اے رہنے والے چوہدری جلیل احمد خاں اور پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر ذوالفقار علی باجوہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے امیدوار تھے۔یہاں بھی یار لوگوں نے مذاق ہی اڑایا کہ ڈاکٹر باجوہ اتنے قد آور سیاسی لوگوں کا مقابلہ کیسے کرسکیں گے۔اباجی نے اپنی جیپ گاڑی بھی ڈاکٹر صاحب کو دوستی کی بناء پر پیش کی ،جو انہوں نے یہ کہہ کر واپس کردی کہ یہ تو پٹرول کے بغیر نہیں چلتی۔مخالفین دن رات مہم چلاتے رہے۔ڈاکٹر باجوہ محض پیپلز پارٹی کے دفتر اپنے میڈیکل سٹوراور پارٹی کے جلسوں تک ہی محدود رہے۔نتائج سامنے آئے تو لوگ دنگ رہ گئے ۔ڈاکٹر ذوالفقار علی باجوہ ساٹھ ہزار سے زائدووٹوں کی اکثریت سے ممبر قومی اسمبلی بن چکے تھے۔ایک جہاں مبارک باددینے گیا۔ڈاکٹر صاحب نے جی ۔ٹی روڈ کی ایک بغلی سٹرک پر اپنا ڈیرہ جمایا۔جوآج تک باجوہ روڈ کہلاتا ہے اور تعمیراتی پتھروں کی اولین مارکیٹ ہے ۔یہیں باجوہ ہائوس میں میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس جو بھی آیا،نامراد نہیں لوٹا۔منتخب نمائندے کرپشن کے نام سے ناواقف تھے۔کسی سیاسی کارکن کے کام آکر خوش ہوتے،چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو۔اور ڈاکٹر صاحب اس بات پر بڑا فخر محسوس کرتے کہ وہ ایک عام کارکن تھے،آج ایم ۔این ۔اے ہیں۔
بس یہی فخران کا سرمایہ تھا۔ناجائز ذرائع سے پیسہ کمانا تو تب انتہائی شرمناک کام سمجھا جاتا تھا۔ڈاکٹر صاحب کے قریبی عزیز چوہدری ارشاد جو پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے وہ پنجاب کے طاقتور وزیر تھے ،مگر عوامی خدمت کا جذبہ ہی دونوں کی میراث رہا۔یہیں ان کے ڈیرے پر پیپلز پارٹی کے ایک بانکے اور سجیلے کارکن شریف جنڈیالوی بھی موجود ہوتے ۔انہی دنوں پنجاب حکومت نے پرائمری ٹیچنگ کورسّ(P.T.C) کیلئے اساتذہ بھرتی کرنے شروع کیئے۔انٹرویو سے پہلے ان کے تقررنامے ایک درخواست کی شکل میں ڈاکٹر صاحب کے پاس موجود تھے جوکوئی میٹرک پاس ان کے ہاں آتا تو بغیر کوئی رقم یاپارٹی فنڈ لئے یہ درخواستیں اپنی مہر کے ساتھ ڈاکٹر صاحب انہیں دیتے،بے شک کوئی سیاسی مخالف ہی کیوں نہ ہوتا۔انہوں نے بہت سی درخواستیں شریف جنڈیالوی کے حوالے بھی کی ہوتیں، جنہیں وہ بڑی خوشی سے میٹرک پاس بے روزگاروں میں تقسیم کرتااور اس کے عوض چائے تو درکنار ایک سگریٹ کابھی روا دار نہ ہوتا۔عجب درویش آدمی تھا۔وقت پر لگا کراڑتا رہا۔
ڈاکٹر باجوہ انسانیت کی خدمت کرتے کرتے عدم آباد کو سدھارگئے۔چوہدری ارشاد بھی مصطفے کھر کی محبت میں"دلائی کیمپ "کی اذیتیں جھیلتے جھیلتے اس فانی دنیا سے رہائی پاگئے ۔ایک ہمارے رانا اقبال ہیں اللہ انہیں صحت اور زندگی عطاء فرمائے کہ ان پر انے زمانوںکی سیاست کے وزیر اور امین ہیں۔شریف جنڈیالوی نے پیپلز پارٹی کو الوادع کہہ کر غلام مصطفے جتوئی کی نیشنل پیپلز پارٹی(N.P.P)میں شمولیت اختیار کرلی مگر اپنا ناطہ پیپلز پارٹی کے دوستوں سے کبھی نہ توڑا،بلکہ اس کا تعلق تو زندگی میں ایک بار جس سے قائم ہوا پھرکبھی ختم نہ ہوسکا۔دوستوں کے ساتھ اس کا تعلق امیر معاویہ کے روائتی دھاگے کی طرح تھا۔ایک بار امیر معاویہ نے کہا کہ میرادشمن مجھے توڑنے کیلئے جتنااپنی طرف کھنچے گا،میں دھاگے کے ساتھ ساتھ اس کی طرف بڑھتا جائوں گا،کہ دھاگہ ٹوٹنے نہ پائے۔2017ء کا اختتام تھا کہ ایک دن صبح صبح کچہری کے نوٹس بورڈ پر ایک غمگین خبر منہ کھولے کھڑی تھی کہ شریف جنڈیالوی گذشتہ رات اپنی پوری زندگی پر محیط جولانیوں، کہانیوں ،ھنگاموں،ہ مہوں، ولولوں، قہقہوں،صبحوںشاموں، سیاست کی کہانیوں ، دوستوں کی محفلوں،احباب کی مجلس آرائیوں، انتخابات کے تجزیوں،چائے کی چسکیوں، سگریٹ کے مرغولوں اور ہنگاموں کو چھوڑ کروہاں چلاگیا ہے جہاں سے کوئی واپس نہیں آسکا ۔شہر کے کچھ ایسے نایاب لوگ بھی تھے جو ایک طرح سے گوجرانوالہ بار کے اعزازی ممبر تھے۔معروف مصنف ودانشور مختار مسعود کے چچا خواجہ آفتاب ہماری بار کے ممبر بیرسٹر وقاص فاروق انصاری کے دادا علامہ عزیز انصاری تحریک پاکستان کے کارکن خلیفہ امام دین بقا، عظیم مرزااور شریف جنڈیالوی کو یہ اعزاز حاصل رہا ۔لاہورسے آنے والوں میں صرف حبیب جالب اس اعزاز کے مستحق ٹھہرے ۔شریف جنڈیالوی نہ کوئی عوامی نمائندہ رہا نہ وزیر نہ بڑا زمیندار نہ بڑا کارخانہ دار مگر انسان بہت بڑا تھا۔اپنے علاقے میں سب سے بڑا جنازہ تھازندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس کے لوگوں نے جنازہ میں شرکت نہ کی ہو۔اب تو ایسے سبھی مثبت لوگ دنیا سے باری باری جارہے ہیں۔آج بھی میں بار میںبیٹھا ایسے لوگوں کو یاد کرتا ہوںتو دل رو دیتا ہے۔ دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی!