"2017" کے دو اہم بیان ۔ٹرمپ کی تنقید سے نہیں عالمی مسائل سے پریشان ہوں دنیا میں تنازعات پھیل رہے ہیں۔ عالمی ادارہ انہیں روکنے میں ناکام ہے۔ معجزے نہیں ہونگے اور نہ ہی میں معجزے کرنے والا ہوں ۔" مسٹر انتونیو گوئیڑس "کی اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے دنیا سے انصاف کی اپیل۔ مساوات پر مبنی دنیا کی تشکیل کے لیے لوگوں کو" یو ۔این ۔او" کا ساتھ دینا چاہیے ۔ انھوں نے دنیا کے سامنے سب سے بڑے سوال کو رکھتے ہوئے پوچھا کہ بحرانوں سے متاثرہ خطے میں شدید ضرورتمندوں کی مدد کیسے کی جائے ۔2017 میں امن کو سب سے آگے رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ لاکھوں لوگوں کو جنگ کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کو خطرناک فورسز کے آگے رکھ کر خواتین ۔ بچوں ۔ عام مردوں کو مارا ۔ زخمی اور بے گھر کیا جا رہا ہے ۔ یہ جنگیں کوئی نہیں جیتتا بلکہ سب کو شکست ہوتی ہے ۔ جنگ حقیقتاً شکست کا دوسرا نام ہے۔ ملک بچ جائے تو معاش ڈوب جاتی ہے ۔ سالوں لڑنے کے بعد انخلاء پر عزت ڈوب جاتی ہے۔ مثالیں ۔ عراق۔ افغانستان اب" شام" ۔ خواہش اور عزم بُرا نہیں ۔ مایوس کن ضرور ہے اِس تناظر میں کہ" ادارے" کا قیام تب دنیا کو درپیش جنگوں کا خاتمہ اور امن کا قیام تھا ۔" ادارہ" اپنے مقاصد کے حصول میں کتنا اور کس حد تک کامیاب رہا ؟ کامیابی پر چند سطروں کے علاوہ پوری کتاب کالے حروف سے پُر ہے ۔ حتیٰ کہ اُن قوتوں کے ذمہ داران بھی شکوہ کناں ہیں جنھوں نے روز اول سے قبضہ گیری ۔ مفاد پرستی کی خشتِ اول بنیاد میں رکھ دی تھی ۔" صدر ٹرمپ "نے اقوام متحدہ کو" گپ شپ کی جگہ" قرار دیا تو کچھ بھی غلط نہیں ۔ اب نیٹو کے منہ پر حرفِ شکایت ہے کہ شام کے معاملہ میں اقوام متحدہ نے انتہائی کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ "اقوام متحدہ "کے قیام سے اب تک دنیا ادارے کے ساتھ تھی اور ہے مگر" ادارے کی پالیسیاں "۔"طاقتور زون" میں طے کی جاتی ہیں ۔ عمل درآمد" ادارہ" کرواتا ہے تو پھر ایسے میں دنیا بھر میں افراتفری کیسے رُک سکتی تھی ۔ ہماری بھی خواہش ہے کہ2017"امن کا سال" ہو مگر اِس کے لیے "ادارے "کو ایک غیر جانبدار‘ امن کے داعی کے طور پر آگے بڑھنا ہوگا ۔ بغیر کِسی امتیاز ۔ دباؤ کے دنیا سے تنازعات کے خاتمہ کے لیے چھوٹے مگر طاقتور ممالک کے ہاتھوں پستے ہوئے ممالک کی آزادی‘ خود مختاری کو یقینی بنانا ہوگا ۔ خود پر چسپاں کمزوری کا لیبل اور عالمی طاقتوں کا حاشیہ بردار کا لقب اُتارنے کے لیے "نئے سیکرٹری جنرل" کو بہت زیادہ جرات ، ہمت دکھانی پڑے گی ۔ فیصلوں میں کمزوری اور جانبدارانہ رویہ۔ اداروں ۔ ممالک کو بالآخر تباہی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔بیانات کی حد تک دنیا بہت اچھی ہے ۔ مگر امن‘ سلامتی عزائم ظاہر کرنے یا خواہش پالنے سے ممکن نہیں ۔ بیان تو" پوپ فرانسس "کا بھی متاثر کن ہے ۔ انھوں نے عالمی اہنماوٗں کو دہشت گردی کے عفریت کے خلاف مل کر لڑنے کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ خون کا دھبہ پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رہا ہے ۔ اُن کی توقع سے مفر ممکن نہیں کہ2017 ایسا ہوگا جیسا لوگ اسے بنائیں گے ۔" پوپ فرانسس" نے بجا فرمایا کہ تشدد سے انکار کر کے امن حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ مگر" قارئین "ہمارا سوال اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے سوال سے بھی بڑا ہے کہ تشدد سے انکار کیسے ممکن ہے جب امن کی داعی قوتیں خود انتشار پھیلانے کے بڑے پروگرام پر عمل پیرا نظر آئیں۔؟؟
عراق ہو یا شام ۔ ایک ہی وقت میں سینکڑوں افراد کبھی داعش اور کبھی "اتحادی بمباری "کی نذر کر دئیے جاتے ہیں ۔ "بحرین "میں جیل پر حملہ کر کے افراد چُھٹروا لیے ۔ ترکی نائٹ کلب میں "سانتا کلاز روپ" نے 50 کے قریب ہلاک کر ڈالے ۔ایک اسلامی ملک میں نائٹ کلب کا کیا کام؟۔ترکی میں آپریشن تاوان کی خبر بھی تشویش کا باعث بنی ۔مسلم نشاۃ ثانیہ کے لیے سر گرم ملک ہر طرح کے مجرموں کا کیمپ بنتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ "برازیل جیل" میں ہنگاموں نے 60" قیدی" ٹکڑوں میں بانٹ دئیے ۔ بر بر یت کی انتہا ۔ وحشی پن کا عروج (برازیل کے دو بڑے گینگز کی جیلوں کا کنٹرول حاصل کرنے کی جنگ) ۔ صرف ہم نہیں ۔ پوری دنیا افراتفری ۔ وحشت ۔ چنگیزیت کا ۔ ترنوالہ بنی ہوئی ہے ۔ عالمی طاقتوں کے پلان کردہ پروگرامز کے نتائج ۔ دنیا بھر میں قبضہ گیری کی جنگ چل رہی ہے ۔ پاکستان اور عالمِ اسلام اِس جنگ کا سب سے آسان مگر پر کشش ہدف ہیں ۔ نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی طاقتوں کا پسندیدہ شکار۔ اب سرحدی ہمسائے کی آبی قبضہ گیری کا مہلک انداز میں شکار ہونے جارہا ہے ۔ دریاوٗں کا پانی روکنے کے بعد اِس طرف بہنے والے ندی ۔ نالوں کا پانی بھی روک دیا ۔سال کے پہلے دن کا آغاز" فائرنگ اور بڑھک" سے ہوا ۔" انڈین آرمی چیف" نے کہا کہ سرحدوں پر امن چاہتے ہیں تو اِس بڑھک کو باقاعدہ توپوں کی سلامی دی گئی ۔جو 4,5 روز سے مسلسل جاری ہے ۔" جنرل راحیل شریف "کی رخصتی کے ساتھ ہی تھمنے والا سلسلہ پھر سے شروع ۔ شاید اُن لوگوں کے کانوں تک بات پہنچ گئی تھی کہ مسلسل اشتعال انگیزیوں کی ظالم سیریل رخصتی کے وقت سے بے دم ہو چکی ہے ۔ کِسی تاثر کو دور کرنے واسطے جاگ اٹھا ہمسایہ ۔ مگر معلوم ہونا چاہیے کہ "پاکستان" آج بھی اُسی طرح محفوظ ہاتھوں میں ہے جس طرح پہلی عسکری "قیادت "کے دور میں تھا ۔ شخصیات بدلتی رہتی ہیں ۔ عزائم ۔ بلند ارادے اور وطن کی سلامتی کسی بھی مخصوص شخص یا" دور "کے ہاتھوں یر غمال یا تبدیل نہیں ہوتی ۔ بلاشبہ درست فرمایا کہ جنگوں میں سب کو ہمیشہ شکست ہوتی ہے ۔ ہمارا یقین ہے کہ جنگ انتقام ۔ بدلے کی آگ کو بڑھاوا دینے کے علاوہ کچھ نہیں وصول کرتی ۔ جنگ خراج ادا کرتی ہے کبھی جغرافیہ کی صورت اور کبھی کسی قوم کی نامودی کی صورت۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024