بچپن تک تو چار موسم ہی دیکھے ، سُنے ، پرکھے تھے۔ پر ہوش سنبھالنے سے لے کر آج عمر کے درمیانی عمل تک ایک ہی موسم کیوں مسلط ہو گیا ہے؟؟؟؟
پہلی مرتبہ ایسے موسم سے واسطہ 1977ءمیں پڑا پھر چل سو چل یہ قوم بھی کیسی انجان ہے ووٹ دیکر ، پیسے دیکر ، خون دیکر ، لاکھوں فرزندوں کی قربانی دیکر بھی یونہی راندہ درگاہ پھرتی رہی ۔ کوئی ”نظام مصطفےٰ“ کے نام پر لوٹ گیا ۔ کسی نے اسلامائزیشن کے مکروہ منصوبے میں لپیٹ دیا اور کوئی فاتح بننے کے چکر میں برف بوش چوٹیوں سے بھی ہاتھ دھلوا بیٹھا ۔ کبھی ”قرض اتارو سکیم“ کے تحت سرِ بازار لُٹ گئی اور کبھی پرائیوٹائزیشن کے نام پر اس کی بقیہ جمع پونجی ”بڑی توندوں والوں“ نے غیر ملکی بینکوں میں جمع کروا دی ۔ یہ قوم وہیں کی وہیں جیب ، دامن خالی کرتی رہی پر اف تک نہ کی ۔ اللہ تعالیٰ اتنی بے حسی ، بے غیرتی بھی کسی کو نہ دے۔ آمین ۔ پھر وہ دور آیا کہ روشن خیالی کے لبادے میں ہمارے باطن کو بھی غیروں کے سامنے عیاں کر دیا گیا ۔ تبھی ، معصوم کونپلوں کو ہر غیر ملکی وفد کے آگے ”لبرل ماڈلز“ بنا کر کیک کی طرح پیش کیا جاتا رہا ۔ تب بھی ہمارے تن بدن میں کوئی چنگاری تک نہ ابھری .... روشن خیالی کی میراتھن میں دہشت گردی ۔ انتہا پسندی کے غیروں کے بوئے بیج تناور درختوں کے قلب میں دھڑا دھڑ پھٹنے لگے۔ کبھی دور تھا کہ سویلین علاقوں میں ایسا ہوتا تھا۔ عالمِ ہوش میں حملہ تو درکنار معمولی بات بھی مقدس ادارے کے متعلق کرنا گناہ متصور ہوتا تھا مگر صدحیف پاکستان کے واحد ۔ متحد ادارے کے خلاف ہم خود بھی سازشوں کا سرگرم کردار بن گئے ۔ اپنی ہی فوج کے خلاف اپنے ہی ذرائع کے ذریعے، غیروں کی مرادیں پوری کرنا شروع کر دیں۔ صرف چند اشخاص کی وجہ سے پورے اداروں کو رگید ڈالا ۔
امن و امان بدتر اقتصادی حالت ، مہنگائی ، وہی نعرے ، وہی مناظر ، وہی چہرے مستزادیہ کہ قابض پرانے چہرے بھی پرانے نظام کے شاکی ، وہی گلاسٹرا ، بوسیدہ نظام مگر صد افسوس بدلنے کیلئے کوئی کوسس کرنے کو آمادہ نہیں ۔ اپنا حصہ ڈالنے کے لئے کوئی تیار نہیں ۔ کیا کسی کو ایسی وطن فروش انڈیا میں کبھی نظر آئی ، کیا کوئی انڈین رہنما کبھی اپنی قوم ۔ اپنی حکومت ، اپنی ریاست کے خلاف اندرون و بیرون انڈیا زہر اگلتا ہے ۔ ہر 70 میل کے فاصلے پر جس ملک میں کلچر بدل جاتا ہو وہاں تو اختلافات کا زہر زیادہ ہیبت ناک صورت میں نکلنا چاہئے تھا ۔ ہم جو ہر بات میں امریکی مداخلت کا رونا روتے رہتے ہیں۔ کیا امریکہ کو اتنی جرا¿ت انڈیا میں ہو سکی ؟ اگر نہیں یقیناً تو پھر یہ ہماری کمزوری ہے ۔ جب اپنے خود ہی اپنے گھروں میں سوراخ کریں گے تو پھر نقب زن نقب تو لگائے گاہی ۔ کیوں ہم نے اتنی آزادی دی کہ ہر بحران کے موقع پر ہمارے لیڈر امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں کیوں آج کل دنیا بھر کے سفیر حضرات ہمارے سیاسی و قومی رہنماﺅں سے ملاقات کرتے پھر رہے ہیں ؟ کیوں ہم اپنی پالیسیوں پر انیہں مطمئن کرنے کی سعی ناکام کرتے پھرتے ہیں؟؟ دنیا کے نقشے پر ایسا تو کسی بھی ملک میں نہیں ہوتا ؟؟؟ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود اتنی کمزوری کہ غیروں کے پر وردہ کل کے مطلوب آج کے نامطلوب اپنے ہی ہم مذہب لوگوں پر دن دیہاڑے بمباری کرتے ہیں تو لاشوں کے ملبہ سے سوائے معصوم بچوں ، بے گناہ عورتوں کے کچھ ہاتھ نہیں آتا جن کے نام پر بمباری کروائی جاتی ہے تو وہ تو اللہ جانے کن نامعلوم راہوں کے مسافر ہیں کم از کم ہمارے علم کی حد تک ایسے لوگوں کا کوئی وجود نظر نہیں آتا ۔ قومی افق پر چھائی یہ دھند ، یہ زہر ناک عصیبت ہماری نجی زندگیوں کو بھی زہر بھرے ، اجنبیت میں ڈوبے تالاب کی نظر کر چکی ہے ۔ رشتوں میں کوئی گرم جوشی ، خلوص نہیں ، احترام نہیں ، بڑے چھوٹے کا فرق ہماری غیرت و حمیت کے جنازہ میں کب کا کندھا دے چکا ۔ ایک بازو گنوانے کے بعد بھی کوئی سنبھل نہیں رہا ۔ تاریخ سے سبق لینے کیلئے تیار نہیں ۔ اداروں کا احترام ہو تو شخصیات محترم قرار پاتی ہیں یہ بھی عجیب ستم ظریفی نہیں ۔ تو یونہی ہوا کہ کسی ننگ دھڑنگ وجود کو ”کوٹ“ پہنا کر کہہ دیا جائے کہ ننگے پن کو ڈھانپ دیا ۔ ادھر ”میں“ ۔ ”میں“ باقی کوئی وجود نہیں ۔
مجھے فلاں نے ہٹانے کی سازش کی اس لئے میں نے اسے ہٹا دیا ، باقی سب وطن فروش ، مجرم ، غدار آئین شکن صرف ”میں“ محب وطن کہ آٰئین پاﺅں کی نوک پر ۔ مرضی امریکہ کی ، بندے ہمارے ، بمباری کے لئے بمبار ہمارا ، مرنے والے اور مارنے والے دونوں ہمارے ۔ یہ سب کروانے والا دشمن سامراج اور یہ سب ”میں“ درست ، بہترین قومی مفاد میں سمجھتا ہوں ۔ آخر ہمارے حکمرانوں کی ”میں“ کب نکلے گی؟؟ حالیہ انتخابی مہم کے دوران لیڈران کرام کی جو قلابازیاں مفاد پرستی پر مبنی پالیسیاں ۔ کیا اب بھی سیکھنے کے لئے کسی ”خودکش دماغی بمبار“ کی ضرورت ہے؟؟؟ ہم تو ساٹھ سالوں سے میدان کربلا میں کھڑے ”یزیدوں“ کے یرغمال بنے لٹتے جا رہے ہیں ۔ شاداب بستیوں ، خوشحال ملک ، نیک پاکباز معاشرہ اور صاحب کردار اولاد دیکھنے کے خواب تو ”غیروں ، اپنوں“ کے حُقہ کی چلم کا دھواں بن کر کب سے اڑ چن ہو گئے ۔ یہ ”پانچواں“ نامہربان موسم کب بدلے گا؟ بدلے گا بھی یا پھر ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے گلے کا طوق بھی یہی بنے گا؟؟؟؟؟
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024