اوائل 1997ء کی بات ہے جب غنویٰ بھٹو نے میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد سیاست میں آنے کا اعلان کیا تو میری بیگم رضیہ طارق نے اپنے ایک کالم میں اْس انٹری پر پنجابی کی ایک ضرب المثل کا سہارا لیکر الفاظ کے روپ میں پیپلز پارٹی کا ایک تصویری خاکہ کھینچا تھا جو کچھ یوں تھا۔ "ماں وی آنھی" " تی وی آنھی " "آنھہڑا جوائی " "ویکھو الہہ پاگ لایا " "نْو وی آنھی آئی "۔ بیس سال بعد اج مسلم لیگ نون جس کفیت اور جن حالات سے گزر رہی ہے اور خاصکر حالیہ دھرنے میں جس قسم کی Indoor اور Outdoor Activities دیکھنے اور کہانیاں سْننے کو ملی ہیں اس پر میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں بھی پنجابی کی ایک قدیم ضرب المثل کی صورت میں اپنے قارئین خاص کر نون لیگی دوستوں کیلئے آج کی صورتحال کا ایک تصویری خاکہ کھینچوں۔ جو کچھ اس کہاوت "ککلی کلیر دی" "پگ نکے ویر دی" "فیصلہ شپائی دا" "فٹے منہ جوائی دا" سے مختلف دکھائی نہیں دیتی۔ غالب امکان تو یہی ہے کہ اس کہاوت سے سمجھنے والے بہت کچھ سمجھ گئے ہونگے لیکن پھر بھی کچھ کو سمجھانے کیلیئے تفصیل میں جانے کی بجائے صرف اشاروں کی زبان بہتر رہے گی۔ "ککلی کلیر دی "۔ اس سلسلے میں رتی بھر شک بھی ہو تو 25 نومبر 2017ء کی وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات پر ایک نظر ڈال لیں اس سے بڑی حقیقتیں واضح ہو جائینگی۔ "واری نکے ویر دی " عدالتی فیصلوں کے بعد اور حالیہ دھرنے میں چھوٹے کے کردار کے بعد تدبر کس بات کا متقاضی ہے ساری تفصیل صرف اس ایک فقرے میں موجود ہے باقی کوئی نہ سمجھے تو پھر میں اور اپ کیا کر سکتے ہیں۔ ضرب المثل کے تیسرے فقرے میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی سچائی چھپی ہے کہ ملک ہو یا محلہ معتبر اور مانا جانے والا فیصلہ چھڑی والے کا ہی ہوتا ہے یقین نہ آئے تو 26 نومبر والے متنازع معاہدہ پر ہی ایک نظر ڈال لیں کہ اس معاہدے کو معتبر بنانے کیلیئے کس کے دستخطوں کی ضرورت پڑی اور ضرب المثل کا آخری فقرہ" فٹے منہ جوائی دا" جو ہمارے معاشرے کی ایک بہت بڑی حقیقت بھی ہے کہ داماد جتنا مرضی اچھا ہو لیکن سسرال کی طرف سے یہ فقرہ اسکا مقدر ٹھہر چکا وہ اپنی جگہ لیکن موجودہ صورتحال میں یہ فقرہ کس پر فٹ بیٹھتا ہے اس معاملے میں مجھے آپ کو یا کسی اور کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میری ادنیٰ رائے میں اسکا فیصلہ ہمیں تاریخ پر چھوڑ دینا چاہیئے کہ وہ پچھلے ایک دو ماہ سے اس مخصوص شخصیت کے کردار کے حوالے سے چاہے وہ اسمبلی میں اسکی تقریر ہو یا کچھ اور زیر گردش افواہیں اس تاریخی فقرے کا اطلاق موصوف پر کرتی ہے یا اس سے انہیں مبرا ٹھہراتی ہے لیکن یہاں میں اتنا ضرور کہوں گا کہ یاد رکھیں افواہیں ایسے ہی جنم نہیں لیتیں۔ کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا ضرور ہوتا ہے جہاں سے بات چلتی ہے۔
دال میں کچھ کالے کی بات چل نکلی ہے تو یقین جانئے اس نومبر کے مہینے میں جو گْل کھلے اس پر اگر یہ کہوں کہ دال میں صرف کچھ کالا ہی نہیں بلکہ پوری کی پوری دال ہی کالی نظر آتی ہے تو بیجا نہ ہو گا اس پر مزید اگر یہ کہوں کہ کْکڑوں کی اس لڑائی میں "کْکڑ کھیاْڑائی تے رَج کے اپنے ہی سِر پائی" تو یہ بھی کسی طور غیر مناسب دکھائی نہیں دے گا۔ سوال یہا ں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تاثر صرف میرے یا چند عام شہریوں تک ہی محدود ہے یا اسکے معتبر ہونے میں کچھ اور بھی شواہد موجود ہیں تو قارئین اس ملک کے دو اہم ترین اداروں جن میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ شامل ہیں ان میں ہونے والی کارروائی اور اس بابت پوچھے گئے سوالات اور ان پر دیے گئے ریمارکس کے بعد تو اس تاثر پر مزید مہر ثبت ہونے میں کوئی شک ہی نہیں رہ پاتا کہ اس ملک میں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ دیکھنے کی بات ہے کہ وہ کیا جواب طلب عوامل یا اسباب ہیں جن سے یہ تاثر ابھرا۔ اس تناظر میں حالات کے تسلسل پر اگر ایک نظر ڈالیں تو سب سے پہلا سوال اسمبلی میں کیپٹن (ر) صفدر ختم نبوت پر بے موقع تقریر پر اٹھتا ہے۔ پانامہ کیس میں پیشی بھگتنے کے بعد میڈیا کے سامنے انہوں نے نواز شریف کی مخالفت میں بولنے والوں کو جب یہ کہا کہ دراصل یہ لوگ نوازشریف کے خلاف نہیں بلکہ نظریہ پاکستان کے خلاف بول رہے ہیں تو مجھ جیسے ناقص عقل لوگوں کا خیال تھا کہ جب گاڑی کافی عرصہ بند رہے تو دھکا سٹارٹ پر گاڑی کے سلنسر سے ایسے ہی مس فائر سننے کو ملتے ہیں لیکن جب موصوف ختمِ نبوت کے ایشو کو لیکر بے موقع اسمبلی میں بولے تو حالات کی نزاکت سمجھنے والوں کے کان کھڑے ہو گئے کہ ہو نہ ہو اندرون خانہ کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ کھچڑی کی خوشبو باہر والوں کو بعد میں جبکہ گھر والوں کو بہت پہلے مل جاتی ہے شاید اسی لئے گھر کے بھیدیوں نے ایک اور ماڈل ٹاون سانحہ سے بچنے کیلئے کچھ ایسے تانے بانے بْنے کہ معرکہ آرائی کیلیئے جنگ کا میدان لاہور کی بجائے اسلام آباد معتبر ٹھہرا۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اس سارے گھنائونے کھیل کے آخرکار وہ کیا ممکنہ مقصود اہداف تھے جس کے لیئے اس کھیل کو اتنی طوالت بخشی گئی اور دیکھتے دیکھتے اس ادارے کے لوگ بھی اس میں خود بخود کود پڑے جو 2014ء میں ایک سو چھبیس دن اس وقت خاموش رہے جب انہیں اپنے ادارے کے اندر داخلے کیلئے بھی پچھواڑے سے داخل ہونا پڑتا تھا۔ عام شہری کے ذہن میں یہ سوال بھی اْبھرتا ہے کہ سویلین انتظامیہ نے ارٹیکل 245 کے تحت آرمڈ فورسز کو کیوں طلب کیا جبکہ اس صورتحال کو سول فورسز آسانی سے حل کر سکتی تھیں۔ کیا اس ساری Excercise کا مقصد جگہ جگہ لاشیں گرانا اور اسکا سارا ملبہ اس طاقتور ادارے اور اسکے سربراہ پر ڈالنا مقصود تھا جس کے بارے میں پچھلے سال نومبر میں اسی ایشو پر ایک ٹارگٹڈ کمپین چلائی گئی تھی۔ یہ تمام سوالات اپنی جگہ لیکن ایک عام شہری یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ جب 26 نومبر کو سول فورسز اپنے اہداف حاصل کرنے کے بالکل قریب تھیں تو وہ آسمانوں سے کون سے فرشتے اترے کہ پلک جھپکتے ہی میدان جنگ کا سارا نقشہ ہی بدل گیا۔ قارئین یہ کالم لکھنے سے پہلے میرے دل میں آیا کہ ان تمام سوالوں کا جواب ایک کالم بعنوان "جسٹس منیر سے جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس فائز عیسیٰ تک" میں لکھوں لیکن پھر میں نے سوچا کہ اسکا فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ تاریخ تلخ سے تلخ حقائق بھی ڈھونڈ نکالتی ہے اور لکھ دیتی ہے جبکہ مجھ جیسے بزدل سب کچھ جانتے ہوئے بھی نہ کچھ کہہ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔ تاریخ اپنا کام تو کرے گی کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس نازک مسئلے پر ہم بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کی بجائے ایک Truth and Reconciliation Commission بنائیں جو حقائق کی تہہ تک جائے اور ذمہ داروں کو قرار واقع سزا دے اس پر تفصیل میں انشاء اللہ کسی اگلے کالم میں بات ہو گی۔ سر دست میں صرف اتنا جانتا ہوں جو بھی ہوا اچھا نہیں ہوا۔