پاکستان پیپلز پارٹی کو چار سال پہلے چھوڑ چکا ہوں اس لئے اس پر لکھنے کو دل نہیں چاہتا کہ کہیں تعصب کا احساس نہ ہو پھر ایک ایسی پارٹی جس میں اپنی جوانی لگا دی۔ جیل یاترا کی ہو ۔ نواز شریف کی 1997ءکی حکومت میں بے نظیر بھٹو کے بعد میں دوسرا سیاسی بندہ تھا جس کو جلا وطن ہونا پڑا اور میری واپسی جنرل مشرف کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ہوئی ۔ مزید یہ کہ ARD بنا کر جنرل مشرف کی آمریت کا مقابلہ کیا اور اس میں بے نظیر بھٹو کے حکم پر نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کے ساتھ مرکزی سیکریٹری اطلاعات کی حیثیت سے کام کیا آصف زرداری کے جیل کے عرصے میں کوئی پیشی ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں شریک نہیں ہوا چاہے وہ لاہور میں تھی یا روالپنڈی میں حتیٰ کہ کراچی جیل جا کر بھی پیشی میں جاتا رہا اس لئے بڑے دکھ اور تکلیف کے ساتھ پیپلزپارٹی پر لکھنا پڑتا ہے ۔ مزید یہ کہ سچ بولنے اور لکھنے سے روکنا بڑی زیادتی اور ظلم ہوتا ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے آج کل پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس کے نام پر میلہ لگایا ہوا ہے اور بڑے بڑے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ بلاول نے دن کو خواب دیکھنے بھی شروع کر دئیے ہیں کہ وہ 2018ءمیں وزیراعظم ہونگے۔ بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ آصف زرداری تقریباََ 18 ماہ سے ملک سے بھاگے ہوئے ہیں اینٹ سے اینٹ بجانے کا نعرہ لگایا اور فرار ہو گئے ۔ بلاول نے چار مطالبات نہ ماننے کی صورت میں 27 دسمبر کو تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے میں مطالبات کی تفصیل میں تو نہیں پڑتا لیکن بلاول کو اپنی پارٹی کی حیثیت کا شاید اندازہ نہیں ہے اس لئے کہ وہ صرف خوابوں کے شہزادے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے حال ہی میں جہلم اور جھنگ کے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا تھا اسکی انتخابی مہم سید خورشید شاہ ، ڈپٹی سپیکر سندھ شہلا رضا، قمر زمان کائرہ اور دوسرے لیڈر چلاتے رہے لیکن جھنگ الیکشن کا نتیجہ کیا نکلا کہ ضمانت ضبط ہو گئی سندھ کے علاوہ دوسرے صوبوں کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی تو ایک طرف امیدوار بھی نہیں ملے ۔ مخدوم احمد محمود اور میاں منظور احمد وٹو کی ذاتی سیٹوں کو پی پی پی کی کامیابی سمجھنا تو صرف خواب دیکھنے والی بات ہے کسی کے خواب دیکھنے پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی لیکن حقائق کو نظر انداز کر کے دعوے کرنے کو کون عقلمندی کہہ سکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی 2008ءسے 2013ءکی حکومت نے پارٹی کو تباہی کے کنارے کھڑا کر دیا ہے دونوں وزیراعظم اور وفاقی وزراءدونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے دوستوں اور رشتہ داروں کو نوازتے رہے اور کارکن رسوا ہوتے رہے۔ 2013ءکا الیکشن آیا تو امیدوار نہیں مل رہے تھے جو ملے تو دو چار ہزار ووٹوں سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ 2013ءکے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ خفیہ اتحاد کر کے سیاست ہو رہی ہے۔ سید خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر ہیں۔ شریف انسان ہیں سکھر میں بڑی خدمت کرتے ہیں لیکن دکھاوے کی اپوزیشن کر رہے ہیں۔ نواز شریف نے زرداری کے ساتھ اتحاد کر کے سندھ میں اپنی پارٹی کو ختم کر دیا۔ کئی سابق وزیراعلیٰ اور وفاقی وزراءکو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ ذرا اندازہ کریں کہ پیپلزپارٹی کیسی اپوزیشن کر رہی ہے کہ وہ حکومت پر تنقید کرنے کی بجائے چوہدری نثار کیخلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ کیا مزیدار مخالفت ہے کہ پارٹی سربراہ ٹھیک ہے لیکن انکا ایک وزیر غلط ہے۔ چوہدری نثار علی خان 30 سال سے اقتدار کے ایوانوں میں آتے جاتے رہے ہیں لیکن کوئی ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ ایک صاف گو اورکھرے انسان ہیںلگی لپٹی کے بغیر بات کرتے ہیں اس لئے انکی مخالفت کی جاتی ہے۔میں ذکر کر رہا تھا کہ پیپلزپارٹی کی اپوزیشن کرنے کا انداز! پانامہ لیکس پر انتہائی کمزور مو¿قف اختیار کیا گیا چوہدری اعتزاز احسن اس معاملے کو انتہا پر لے جانا چاہتے تھے لیکن ان کو روکا گیا اور معاملے کو جان بوجھ کر لمبا کیا گیا۔ عمران خان نے پانامہ لیکس پراحتجاج کا اعلان کیا تو اس میں شامل ہونے سے انکارکر دیا۔ سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی تو اس کی مخالفت کی گئی ۔ ایک اپوزیشن پارٹی دوسری اپوزیشن پارٹی جو کہ حکومت کیخلاف بھرپور احتجاج کر رہی ہے اسکی مخالفت کر رہی ہے ۔آصف زرداری ، بلاول ، خورشید شاہ اور دوسرے پی پی پی لیڈروں کا ہدف تحریک انصاف ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے لیڈر لوگوں کو بھی یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم اندر سے ملے ہوئے ہیں اور ہمارا مقصد تحریک انصاف کو نقصان پہنچانا ہے۔ پیپلزپارٹی کیلئے پاکستان مسلم لیگ (ن) قابل قبول ہے تحریک انصاف نہیں۔ پی پی پی کے لیڈرکہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی یہ قربانی کم ہے کہ انہوںنے سندھ میںاپنی پارٹی کو Dead کر دیا ہے اور ہمیں کھل کر حکومت کرنے کا موقع دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نوجوان ہیں لیکن جوش کے ساتھ ہوش کی ضرورت ہے معلوم نہیں کہ انکے بڑے دعوے انکی اپنی مرضی سے ہوتے ہیں یا انکی تقریریں لکھنے والوں کے ۔ابھی تک بلاول یہ تاثر دورکرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ وہ آزاد ہیں۔ سندھ ، پنجاب اور دیگرصوبوں میں تنظیموں کا اعلان کر کے وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ با اختیار ہیں لیکن گزشتہ روز آصف زرداری نے بلاول کو ضمنی الیکشن لڑنے کی اجازت دیکر یہ تاثر دورکر دیا اور ثابت کر دیا کہ آج بھی آصف زرداری با اختیار ہیں اور وہی فیصلے کرتے ہیں ۔ آزاد کشمیر کے الیکشن میں بلاول کو میدان میں اتارا گیا اور بڑے بڑے جلسے کئے جلسوں میں بلاول سے میاں نواز شریف کیخلا ف نعرے لگائے گئے اور مودی کا یار اور غدار ہے غدار ہے کہا گیا ۔ جونہی بلاول بھٹو زرداری کو APC میں جانا پڑا اور میاں نوازشریف سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ میں کیسے نواز شریف کو غدار کہہ سکتا ہوں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ آج کل ہر تقریر ریکارڈ ہوتی ہے کوئی کہی ہوئی بات واپس تو لی جا سکتی ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور کشمیر کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا صفایا ہو گیا۔پیپلزپارٹی نے لاہور میں یوم تاسیس منا کر پارٹی کو پنجاب میں زندہ اور سرگرم دکھانے کی کوشش کی روزانہ کافی لوگ نظر آتے ہیں ۔ سٹیج پر متعلقہ صوبوں کے لیڈر ہوتے ہیں جبکہ ارد گرد وہی روزانہ والے کارکن اور راہنما PIA کے سابق مشیر طاہر خلیق کہتے ہیں کہ کتنی بد قسمتی ہے کہ بحریہ ٹاﺅن کے ایک ہزار ملازمین روزانہ ڈیوٹیوں پر ہوتے ہیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے غریبوں کیلئے پارٹی بنائی تھی جس کوآصف زرداری نے امیروں کے علاقے بحریہ ٹاﺅن میں محدود کر دیا۔ بلاول کو بھٹو بنانے کی کوشش ٹھیک ہے لیکن اس کیلئے وہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے جو شہید بھٹو نے کیا تھا۔ بھٹو نے ایوب خان کی مخالفت کی تھی تو آمریت کو رخصت ہونا پڑا۔ اندر خانے حکومت کے ساتھ اتحاد کر کے کیسے گو نواز گوکو حقیقت مانا جا سکتا ہے۔ سچ سچ ہوتا ہے سچ صرف بولنا نہیں ہوتا بلکہ عمل سے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ غریبوں اور گلگت کشمیر اور چاروںصوبوں کی پارٹی کوختم کر دیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کو بچانا ہے تو جھوٹ بولنا چھوڑنا ہو گا۔ حقیقی اپوزیشن کرنا ہو گی عمران خان کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں۔ کیا پوری دنیا کی نظر میں اپوزیشن صرف اور صرف تحریک انصاف ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت سے ملی ہوئی کا شرمناک الزام لگانے کی بجائے حکومت کی اتحادی بن جائے یا تحریک انصاف کا بھرپور ساتھ دے۔
میرا مقصد پاکستان مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرنا نہیںبلکہ یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ حکومت اپنا کام کرے اور اپوزیشن اسکی اصلاح کیلئے بھرپور تنقید کرے۔ حکومت اور اپوزیشن جمہوریت کے دو پہیے ہیں دونوں کو مضبوط رکھ کے ہی ہم جمہوریت کے ثمرات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ 2018ءکا الیکشن سب کیلئے کھلا ہے جو اکثریت حاصل کرے گا وہ وزیراعظم بنے گا لیکن خوابوں سے نکل کردن کوخواب دیکھنا کوئی بری بات نہیں لیکن سچ اورحقیقت کو نظراندازکرکے نہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024