امریکہ، بھارت، افغانستان کی انتہائی کوشش ہے کہ پاکستان کو تنہا کر دیا جائے۔ قید تنہائی کے ساتھ یہ ٹرائیکا پاکستان کے شرانگیز، پروپیگنڈے میں بھی ملوث ہے اور ساتھ ہی پاکستان کو مقروض، مجبور، مقہور اور بدنام بھی کر رہا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کو باس بنا کر اپنے لئے جو مستقل غلامی خریدی ہے۔ اسکے خطرناک نتائج کا 30 فیصد حصہ سامنے آ چکا ہے اور سو فیصد عزائم 2018ءتک سامنے آ جائینگے۔ روس شروع سے بھارت کا دوست اور بھائی ہے وہ ہمیں اس لئے بھی پسند نہیں کرتا کہ ہم مسلمان ہیں اور اسکی نظر میں انتہا پسند بھی ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے روس کا ہاتھ جھٹک کر امریکہ کا ہاتھ تھاما تھا۔ روس اور امریکہ کے تعلقات بھی پاکستان بھارت کی طرح بغض و عناد اور حسد و رقابت پر مبنی ہیں لہذا یہ کہنا روس سے ہمارے تعلقات بہتر ہونگے، ایک کھلا مذاق ہے۔ بنگلہ دیش کبھی ہمارے جسم کا حصہ تھا لیکن وہی غریب، بدحال اور بے چارہ بنگلہ دیش آج اپنے پاﺅں پر کھڑا ہے اور اس خطے کے سب سے بدترین دشمن بھارت کے نکاح میں ہے جس طرح انتہائی بوڑھے علماءکو پاکستان کے حق میں بات کرنے پر بنگلہ دیش نے ضعیف العمری میں پھانسیاں دیں۔ اس سے بنگلہ دیش کی پاکستان سے نفرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس پر پاکستانی حکومت منہ میں فیڈر ڈال کر سوتی رہی۔ صرف جماعت اسلامی کی طرف سے احتجاج سامنے آیا۔ حد تو یہ ہے کہ دنیا کا نام نہاد ہیومن رائٹس کا علمبردار چیمپئن جو ایک کتے کو پتھر مارنے پر عدالت چلا جاتا ہے وہ بھی منہ میں چوسنی لگا کر بیٹھا دیا۔ شکیل آفریدی کیلئے تو اس نے زمین آسمان ایک کر دیا۔ ایمل کانسی اور خالد شیخ کیلئے طوفان اٹھا دیا لیکن ستر سال سے زائد العمر بوڑھوں کو پھانسیوں پر نہ امریکہ کچھ بولانہ عالمی عدالتیں بولیں نہ اقوام متحدہ نے ایک لفظ کہا۔ او آئی سی تو ویسے بھی مجذوبوں کی تنظیم ہے جس نے نہ کبھی فلسطین کےلئے آواز بلند کی نہ کشمیر کیلئے آواز اٹھائی اور نہ ہی بوسنیا، شام، عراق، افغانستان، یمن، مصر اور لیبیا میں کی جانیوالی امریکی اسرائیلی روسی بربریت پر ایک لفظ کی مذمت کی۔ مسلمانوں کی بہادری، جی داری اور غیوری کے جو قصے ہم نے تاریخ میں پڑھے تھے، افسوس کہ او آئی سی ان قصوں کی نفی کرتی ہے۔ جب 57 اسلامی ممالک پر مشتمل او آئی سی ہی کچھ نہیں کر سکتی اور سب کو امریکہ یا بھارت یا اسرائیل سے تعلقات خراب ہونے کا خوف ستانے لگتا ہے۔ روس نے ذرا سا دانہ ڈالا تو پاکستان نے اسے سی پیک میں شمولیت کی دعوت دے ڈالی۔ قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے لہٰذا وزیراعظم بغیر سوچے سمجھے ہر ملک سے اپنے ذاتی تعلقات بڑھانے کیلئے سی پیک میں ہر ایک کو منہ مارنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردگان پر کروڑوں روپیہ خرچ کیا گیا ہے ۔ گئے ۔ ایک طرف سی پیک کو عدم توجہ ، کم علمی ، جہالت ، غیر منصوبہ بندی اور عقل کے فقدان کی وجہ سے غیر مو¿ثر ، بے فائدہ اور بے عمل بنایا جا رہا ہے اور ہر ملک کو اس طرح دعوت دی جا رہی ہے جیسے سی پیک نہ ہوا ، داتا کال لنگر ہو گئی ۔ کم از کم اسکے کچھ قاعدے قوانین مرتب ہونے چاہئیں ۔ چین نے اس پر اگر سو ارب لگایا ہے تو چین سی پیک سے ایک ہزار ارب کمائے گا اور پاکستان صرف ”وچولن“ بن کر رہ جائیگا ۔ ہو سکے تو ریکارڈ کےلئے دماغ کی ڈائری پر لکھ لیجئے ۔ افغانستان نے پاکستان کی جڑیں کمزور کی ہیں اور بھارت نے اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی ہے ۔ اشرف غنی کے شر انگیز بیانات اور کارروائیاں پاکستان کو دن رات کمزور کر رہے ہیں لیکن وزیراعظم بے خبر ہیں۔ بھاگ بھاگ کر افغانی بھارت ، امریکی صدر وزیراعظم سے گلے ملنے اور ہاتھ ملانے کے شوق میں یہ تک یاد نہیں رہتا کہ تینوں پاکستان کو کھا رہے ہیں ۔ نریندر مودی نے گزشتہ تین ماہ سے جو اَت مچا رکھی ہے خاص طور پر پانامہ لیکس کے بعد سے پاکستان کے ساتھ آمادہ بہ جنگ ہے تو کیا کسی کو سمجھ نہیں آتی کہ اسکے پس پردہ کیا محرکات ہیں ۔ بھارت کی طرف سے مسلسل وشنام طرازی ، الزام تراشی ، گولیوں کی بوچھاڑ اور انتہائی ہتک آمیز رویہ برتا جا رہا ہے۔ حقارت آمیز سلوک کیساتھ پاکستان کو مسلسل عالمی سطح پر نقصان پہنچا رہا ہے ۔ اب ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں جانے کا کوئی جواز نہیں تھا ۔ وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا ۔ بھارت نے تذلیل آمیز سلوک کیا لیکن سرتاج عزیز کو بھارت بھیج دیا گیا ۔ کیا ہاتھ آیا رسوائی کے سِوا۔اس وقت عالمی سطح پر ہم ڈبل ٹرائیکا سے نبرد آزما ہیں ۔ ہماری عزت داﺅ پر لگی ہے ۔ ہماری بقا کا سوال ہے لیکن پاکستان کے اندر تماشہ جاری ہے ۔ اسحاق ڈار نے پوری قوم کو ٹیکسوں اور مہنگائی کے جال میں پھنسا کر نفسیاتی ، جسمانی اور اعصابی امراض میں جکڑ دیا ہے ۔ عمران خان کو بھی صرف پروجیکشن اور ٹائم پاس کرنے کا شوق ہے ۔ پیپلز پارٹی نے نئی گیم شروع کر دی ہے ۔ کل تک پانامہ لیکس پر روزہ رکھا ہوا تھا ۔ اب خورشید شاہ کہتے ہیں کہ قطری شہزادے کے خط کے بعد دادا جی کی سونے کی دیگ بھی نکل سکتی ہے ۔ بلاول نے لطیفہ سُنا دیا کہ 2018ءمیں وہ وزیراعظم بنیں گے ۔ نعرے بھی لگوا دیئے ۔ بیٹا ابھی تمہیں یہ نہیں پتہ کہ وزیراعظم بننے کےلئے 35 سال کا ہونا شرط ہے ۔ 2018ءمیں تو تم 30 سال کے بھی نہیں ہوگے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری بھی خود کو اگلا وزیراعظم سمجھ کر آتے ہیں ۔ شہباز شریف بھی خود کو اگلا وزیراعظم سمجھتے ہیں ۔ مریم نواز کو بھی وزیراعظم بننے کے خواب آتے ہیں ۔ یہ فہرست بہت لمبی ہے ۔ پاکستان سے وزیراعظم کا عہدہ ہی تحلیل کر دینا چاہئے کیونکہ عوام کےلئے تو ایک طرف کنواں ہے دوسری طرف کھائی ہے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024