میں قلم کی روزی کمانے کیلئے روزانہ راولپنڈی ‘ اسلام آباد ایسے جڑواں شہروں کے مابین لوکل روٹ پر سفر کرتا ہوں۔ تقریباً ایک یا پون گھنٹے کا سفر میرے لئے روزانہ ایک جیسے تجربات و مشاہدات کا موجب بنتا ہے۔ نت نئے مناظر اور واقعات و حادثات سے بھی پالا پڑتا ہے‘ لیکن نتائج و عواقب کے حوالے سے یکسانیت میرے لئے کم کم ہی چونکا دینے والی صورت حال سامنے لاتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں سڑک کے دونوں اطراف بہت سے بے کار اور تماش بین لوگ اضطراب کے عالم میں بیٹھے وقت گزار رہے ہیں۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ انکے پاس کوئی کام کرنے کے لائق نہیں۔ ان میں اکثر و بیشتر غریب یا متوسط طبقے کے افراد ہوتے ہیں‘ کم پڑھے لکھے یا ناخواندہ لوگ لیکن انکی وضع قطع سے لگتا ہے کہ زندگی اور اسکے لوازمات سے بظاہر خاصی حد تک آگاہ ہیں۔ ان میں نوجوان ‘ ادھیڑ عمر اور بوڑھے سبھی شامل ہیں۔ بعض شکلوں سے تو میں خاصی حد تک مانوس ہو چکا ہوں۔ دیکھے بھالے یہ لوگ روزانہ نہیں تو گاہے گاہے یہاں ضرور نظر آتے ہیں۔ بسا اوقات تو سڑک کے اطراف نئے اور پرانے لوگوں کا جم غفیر دکھائی دیتا ہے۔ جو بظاہر بے کار معلوم ہوتے ہیں لیکن بہت سوں کو بہت سے کام سوجھ ہی جاتے ہیں۔ عمیق مشاہدے سے معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر وقت گزاری کیلئے یہاں روزانہ آ دھمکتے ہیں۔ یہ تماش بین لوگ اپنے غم غلط کرنے کے لئے یہاں آتے اور حِظ اٹھا کر خود کومحظوظ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ کچھ ان میں لڑکوں کی عمر کے جیب کترے اور سٹریٹ کرائمز کے رسیا ہوتے ہیں۔ جو عام طور پر بس یا ویگن سٹاپوں کے قریب قریب نظر آتے ہیں۔ بعض سفید پوش چھپے ہوئے گداگر ہیں جو کسی خوش لباس مخیر شخص کو دیکھ کر ہی اپنا آپ ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض مستحق اور بیشتر فراڈیے دکھائی دیتے ہیں۔ ژاں پال سارتر نے کہا تھا کہ انسان کے اعمال اسکے چہرے پر چیچک کے داغوں کی طرح نمایاں ہوتے ہیں۔ مصروف ترین شاہراہوں پر ‘ گاڑی یا ویگن میں سفر کرتے ہوئے جب آپ کسی اشارے پر یا ٹریفک رش میں رکیں تو سڑک کے دونوں کناروں پر کھڑے اور بیٹھے لوگوں میں سے بہت سے چہرے اپنے خدوخال کے اعتبار سے سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ ان میں منشیات فروش‘ بردہ فروش‘ دھوکے باز‘ مداری اور مجمع باز قسم کے جغادری لوگ بھی نمایاں ہیں‘ جو ہوا کے رخ پر بسا اوقات اپنے اصل چہرے نمایاں کرتے ہیں۔ ہسپتالوں کے قریب خون اور گردے بیچنے والے کئی ”بیوپاری“ نظر آئینگے جو ”گاہک“ کی آمد پر ہی سامنے آتے اور معاملات طے کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ ایک دوسرے سے شناسا ہیں اور پولیس بھی انہیں جانتی بلکہ خوب پہچانتی ہے۔ عرف عام میں ان سب کو خاص طور پر جیب کتروں اور لین دین کا فراڈ کرنیوالوں کو پولیس کا ”ہراول دستہ“ کہا جاتا ہے۔ اسی لئے جب کبھی کسی ”بااثر“ شخص کی جیب کٹ جائے تو چند گھنٹوں میں ہی پولیس بٹوہ یا نقدی برآمد کر کے اسکے حوالے کر دیتی ہے۔ یہ چھومنتر نہیں بلکہ پولیس کا ان جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ”قریبی تعلق“ ہے جو کبھی ٹوٹتا ہے‘ نہ ہی کمزور پڑتا ہے۔ معاشرے کے یہ ناپسندیدہ لوگ اکثر اوقات پولیس اہلکاروں کے ساتھ قہوہ خانوں میں چائے سے دل بہلا رہے ہوتے ہیں۔ رہی بات گداگروں کی تو مصروف ترین شاہراہوں اور انکے اطراف ویگن سٹاپوں پر انکے گروہ دندناتے پھرتے ہیں۔ کسی کے بچے دو دن سے بھوکے ہیں تو کوئی ڈاکٹر نسخے اٹھائے خود کو موذی بیماری میں گرفتار ظاہر کرتا ہے۔ کوئی دور دراز کے شہر کا مسافر ہے جسے واپس جانے کیلئے کرایہ چاہئے اور کسی کے بچے یتیم ہیں جو گھر میں بھوک سے بلبلا رہے ہیں۔ کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ کھانا کھلا دیں مجھے کچھ اور نہیں چاہئے۔ دو بچوں کا ہاتھ تھامے کوئی آپ کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے تو کوئی چہرے پر ہوائیاں اڑائے بھیانک آواز نکال کر آپکی توجہ چاہتا ہے۔ ادھر آپ ہیں کہ ان سب کی حرکات و سکنات اور گفتگو کا جائزہ لے کر سوچ رہے ہیں کہ یا خدا دنیا یقیناً دکھوں کا گھر ہے۔ یہاں انسان کو غم و الم اور مصیبتوں کے سوا کچھ اور نہیں ملتا لیکن اصل صورت حالات یہ ہے کہ گداگروں کے اس جم غفیر میں شاید مستحقین کی تعداد ایک یا دو فیصد بھی نہیں۔ بھیک مانگتے ہوئے تمام بچے اور چھوٹی عمر کے لڑکے ٹھیکیداروں کے نرغے میں ہیں ‘ وہ ”جو کماتے“ ہیں شام کو ان سے ٹھیکیدار لے لیتا ہے اور اس ”روزی“ کے عوض انہیں شاید رات کا کھانا بھی دے دیتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38