غالب کا شعر ....
یہ مسائلِ تصّوف، یہ تیرا بیان، غالب
ت±جھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا
قارئین اپ بتا سکتے ہیں آج میں نے اپنے کالم کی ابتدائیہ اس شعر سے کیوں کی ہے۔ کالم کی تفصیل میں جائیں گے تو شاید میرے کچھ کہہ بغیر ہی آپ کو اس کا جواب مل جائے۔ ستمبر 1965ءکی بات ہے پاکستان ہندوستان کی جنگ کے دوران ملکہ ترنم نورجہاں نے کئی ملی نغمے اور ترانے گائے لیکن ملکہ ترنم کا ایک ملی نغمہ "اے پ±تر ہٹاں تے نہی وکدے ت±وں کی لب نی وِچ بازار ک±ڑے اے دئین اے میرے داتا دی ت±وں ایویں نہ ٹکڑاں مار ک±ڑے" جی دوستو کیا آپ جانتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد اغیار کی جو جنگ ہم پر مسلط کی گئی اس وقت سے لیکر اج تک وطن کے یہ سپوت جن کے بارے میں ملکہ ترنم نے یہ نغمہ گایا تھا کتنی تعداد میں ہماری حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ جی قارئین ان کی تعداد سینکڑوں نہیں ہزاروں میں پہنچ چکی ہے اس میں صرف پاک فوج کے نچلی سطح پر لڑنے والے نان کمیشنڈ جوان ہی نہیں جنہوں نے اپنے لہو سے وطن کی مٹی کی آبیاری کی ہے بلکہ اس گلدستے میں سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لیکر تھری سٹارجرنیل اور بریگیڈیر رینک کے ہائی کمانڈ آفیسرز بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے اہلِ وطن کی سلامتی کو اپنی ماو¿ں کی گود ا±جڑنے اور اپنے نونہالوں کے یتیم ہونے پر ترجیح دی ہے۔ جب اس طرح کی بات چلتی ہے تو کچھ دوست لوگ کہتے ہیں کہ ان قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہ آگ جس میں آج ہم جل رہے ہیں دراصل یہ شاخسانہ ہے اس غلط پالیسی کا جو اس ادارے کے ایک سابق سربراہ ایک فوجی ڈکٹیٹر ضیا نے اپنے دورِ اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے افغانستان میں جہاد کے نام پر اپنے وطن کے گلے کا ہار بنائی۔ بظاہر یہ بات بڑی وزنی دکھائی دیتی ہے لیکن تاریخی حقائق کی زبان کچھ اور کہانی بیان کرتی ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو افغانستان میں دو بڑی طاقتوں روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا یہ کھیل جسے یار لوگ ہاتھیوں کی لڑائی سے تعبیر کرتے ہیں اور جسے میں چوہے بلی کا کھیل سمجھتا ہوں دراصل ڈکٹیٹر ضیاالحق کے دور سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا جب سویت یونین افغان حکومت کے ذریعے پاکستان کو کمزور کر کے بلوچستان کے راستے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے کے چکروں میں تھا اور بھٹو حکومت اس کھیل میں امریکہ کی سرپرستی میں سعودی عرب، ایران اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ ملکر اس سازش کا بڑی خوبصورتی اور عقلمندی کے ساتھ مقابلہ کر رہی تھی لیکن امریکن جنہیں دنیا بڑا عقلمند سمجھتی ہے اور تاریخ جنہیں دنیا کا سب سے بڑا بیوقوف ثابت کرتی ہے افغانستان کے حوالے سے ا±ن سے پہلی اور سب سے بڑی غلطی اس وقت سرزد ہوئی جب وہ یہ نتیجہ اخذ کر بیٹھے کہ سویت یونین کا مقابلہ کرتے کرتے لاشعوری طور پر امریکہ اور سوویت یونین کے علاوہ مذہبی سوچ کی بنیاد پر ایک ایسی طاقت کا وجود عمل میں آ چکا ہے جسکی قیادت بھٹو جیسے ذہین اور فطین شخص کے ہاتھوں میں آچکی ہے جسکا اگر اسی وقت توڑ نہ کیا گیا تو وہ صرف امریکہ ہی نہیں پوری دنیا کی استعماری اور اشتراکی قوتوں کا قلع قمع کا باعث بنے گی بلکہ پوری دنیا پر اسلامی قوت کا غلبہ یقینی بنا دے گی۔ یہ وہ وقت تھا جب سردار داو¿د مکمل طور پر بھٹو کے ہاتھوں میں آ چکا تھا اور سوویت یونین کے دورے کے بعد وہ بھٹو کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا کہ اس سے پہلے کہ سوویت یونین افغانستان میں اپنی فوجیں بھیجے پاکستان کو داو¿د حکومت کی مدد کے نام پر اپنی افواج افغانستان میں بھجوا دینی چاہئے اور بھٹو اس پر تیار بھی ہو چکا تھا اس لئے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ افغان جنگ میں پنگا لینا ضیاالحق کی غلطی تھی تاریخی حوالوں سے مجھے ان سے اختلاف ہے ہاں یہاں اس بات کو ماننا پڑے گا کہ یہاں پر امریکنوں نے تاریخی غلطی کی اور بھٹو کا دنیا سے پتا صاف کروا کر ایک نالائق شخص کو اقتدار میں لے آئے۔ بطور طالب علم تاریخ ہمیں جو سبق دیتی ہے اور جو ایک حقیقت بھی ہے کہ ایک سیاسی لیڈر اور جرنیل دونوں کی وژن میں بہت فرق ہوتا ہے اور جسے وقت نے ثابت بھی کیا کہ بھٹو اور ضیا کی اپروچ اور اہلیت میں بہت فرق تھا ضیا وقت کی نزاکت کو نہ سمجھ سکا اور پہلے جہاد اور پھر کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کی ایسی داغ بیل ڈال گیا کہ بھٹو کے عوامی کلچر کی تلخیاں ایسے لگنے لگیں جیسے آٹے میں نمک۔ جب مجھ ناچیز جیسے تاریخ کے طالبعلم فوج کی اقتدار سے دوری کا راگ الاپتے ہیں تو اسکی بنیادی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ ایک جرنیل اچھا ایڈمنسٹریٹر تو ہو سکتا ہے اچھا حکمران نہیں کیونکہ حکمرانی میں حکمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ حکمت میں کبھی کبھار مصلحت سے بھی کام لینا پڑتا ہے کہتے مصلحت اور جرا¿ت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ ڈکٹیٹر ضیا نے بہت سی جگہوں پر ج±رات کی بجائے مصلحت سے کام لیا نتیجہ نہ وہ اچھا کمانڈر ثابت ہوا اور نہ اچھا حکمران۔ اس لئے جب ہم ضیاالحق کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی جن پالیسیوں کی وجہ سے ہم نقصان اٹھا رہے ہیں یا جو ہم نے نقصان اٹھایا وہ ایک فوجی کمانڈر کی پالیسیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک صدر مملکت جس کی حاکمیت کے جائز ہونے کے سرٹیفکیٹ پر ہماری عدالت عالیہ اپنی مہر ثبت کر چکی تھی کی کلاکاریاں تھی۔ باقی فوج اور فوجی کمانڈر تو آئین کے تحت اپنے کمانڈر کا حکم مان رہے تھے اور بوقت ضرورت اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے۔ چلیں اس سے ایک قدم آگے چلتے ہیں۔ ڈکٹیٹر ضیاالحق جہاد کے فلسفے کی پراکسی کھیل کر مذہبی انتہا پسندی کا زہر ہماری رگوں میں گھول گیا لیکن اس کی ر±خصتی کے بعد ہماری سیاسی قیادت جس نے اقتدار سنبھالا وہ تو ان روایات سے بغاوت کر سکتی تھی جس کی داغ بیل اس ڈکٹیٹر نے ڈالی تھی افسوس چاہے وہ بینظیر ہو یا سول بالادستی کا ڈھنڈورا پیٹنے والا نوازشریف دونوں نے مذہبی انتہاپسندی کی اس سوچ کو کوئی لگام نہ دی۔ حد تو یہ ہوئی کہ ابتدا جنرل نصیراللہ بابر کی سربراہی میں طالبان کے وجود کے قیام سے ہوئی اور انتہا نواز شریف کی القاعدہ کمانڈر اسامہ بن لادن سے ملاقاتوں پر ہوئی جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ سارا کچھ فوجی دباو پر ہوا ان سے میرا سوال ہے کہ پھر یہ سیاسی قیادت کا لیبل کس خوشی میں؟ اندر کچھ اور اوپر کچھ اور ان سے کوئی پوچھے ایسی جنس کو پتہ ہے کیا کہتے ہیں اس سے آگے بات انشااللہ اگلے کالم میں ہوگی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38