’’سروس اسٹیشن برائے گناہ دھلائی‘‘کے عنوان سے مجھے واٹس اپ پر ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں ایک پیر صاحب ربڑ کی ٹیوب سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں پر پانی پھینک کر ان کے گناہوں کو دھو رہے ہیں گویا یہ ’’اشنان عصیاں‘‘کی تقریب ہے ۔گناہوں کی سیاہی کو ’’اشک توبہ‘‘سے دھونے کی بجائے نلکے کے پانی سے دھویا جارہا ہے۔ہندومت میں گنگا اور جمنا کے دریاؤں میں نہانے سے گناہ دھل جاتے ہیں۔لٰہذا ان دریاؤں پر پاپیوں کا ہجوم رہتا ہے۔مسلمانوں میں از روئے قرآن توبہ کرنے سے گناہوں کی معافی کاذکر ہے۔حدیث رسولؐ میں حج و عمرہ کی سعادت نصیب کرنے اور آئندہ گناہوں سے اجتناب کفارہ عصیاں ہے مگر پاکستان کے ایک’’پیر صاحب‘‘نے نلکے کے پانی سے کفارہ گناہ کا کام شروع کردیا ہے۔اگر یہ پیر ذرا سا بھی روحانی یا مذہبی شعور رکھتا تو’’آب زمزم‘‘کے چند گھونٹ مریدوں کو پلا کر ان پر ’’اعتبار روحانیت‘‘کا چکر چلا سکتا تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اتنی مقدار میں ’’آب زمزم‘‘کہاں سے لایا جائے اس کے لئے تو مکہ شریف جانا پڑتا ہے۔البتہ ایسے فریب کار نلکوں کے پانی سے بوتلیں بھر کر انہیں ’’آب زمزم‘‘قرار دینے میں بھی کب شرمسار ہوتے ہیں۔پاکستان میں لوگ ’’منرل واٹر‘‘کے نام پر نلکوں اور کنوؤں سے پانی بھر کر بیچ رہے ہین۔دودھ میں جو ہڑوں کا پانی ملاتے ہیں۔غذا میں زہریلی اشیاء ملا رہے ہیں۔حتٰی کہ یہ ظالم ضمیر فروش ادویات میں بھی ملاوٹ کررہے ہیں۔ان ٹھگوں،فریب کاروں اور انسان دشمن عناصر کا ’’یوم احتساب‘‘کب آئے گا۔کیا سارے معاملات ’’یوم یقوم الحساب‘‘پر چھوڑ دیئے گئے ہیں۔میں کئی بار اپنے کالموں مین حکومت پر پرزور اپیل کرچکا ہوں کہ ’’روحانی دکانوں‘‘کو بند کیا جائے۔روحانیت اور مذہب کے سودا گروں کا محاسبہ کرو۔عوام کا شعور بیدار کرو۔ملائیت اور شیخیت کار فریب کاراں ہے۔مفکر اسلام ڈاکٹر علامہ اقبال نے فرمایا تھا …؎
خداوندا ترے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
انگریز شاعری جیو فری چاؤسر کی کتاب کینر بری ٹیلز میں عیسائی پادری کی فریب کاری اور دین فروشی کا ذکر ہے۔عیسائی پادری لوگوں سے پیسے لے کر ان کے گناہ معاف کرتے اور جنت کا ٹکٹ جاری کرتے۔حضرت عیسیٰؑ نے یہودی مذہبی پیشواؤں کو مذہب فروشی کو قابل نفرین قرار دیا تھا مگر وہی کام عیسائی پادریوں نے شروع کردیا۔یہی کار ابلیسی اب مسلمان مولوی اور پیر کررہے ہیں۔ نلکوں کے پانی سے گناہوں کے سروس اسٹیشن کھل گئے ہیں۔انسان جب سفر کرتا ہے تو اسے منزل کی خبر ہوتی ہے۔وہ منزل تک پہنچنے کے لئے آسان ،سیدھا اور محفوظ راستہ منتخب کرتا ہے۔مثال کے طور پر ایک شخص اسلام آباد سے لاہور جانے کے لئے نکلتا ہے وہ جہلم ،گجرات اور گوجرانوالہ سے ہوتا ہوا لاہور جائے گا نہ کہ وہ اسلام آباد سے مخالف سمت پشاور جائے گا اور کئی شہروں سے گھوم پھر کر لاہور کی راہ تلاش کرے گا۔یہی معاملہ مذہب کا ہے۔مذہب کی بنیاد اخلاقیات ،عقلیت اور انصاف پر رکھی گئی ہے۔توہمات اورغیر عقلی ،غیرفطری اور غیر انسانی عقائد و اعمال یا رسم و رواج ربانی نہیں شیطانی مذہب ہے۔جیسے ہم ٹوٹی پھوٹی سڑک پر گاڑی چلانے سے اجتناب کرتے ہیں اور پختہ اور محفوظ و مختصرراہ کا انتخاب کرتے ہیں اسی طرح ضابطہ حیات اور قوانین معاشرت میں اعتدال و توازن کے طالب رہتے ہیں۔سورۃ الحمد میں ’’اھدناالصراط المستقیم‘‘دعائے ہر صاحب ایمان ہے۔ہمیں سیدھی راہ دکھا۔ہر مسلمان روزانہ۔پانچ وقت نماز میں یہ الفاظ بطور التجا و دعا خدا کے حضور میں بصدق دل پیش کرتا ہے ’’صراط مستقیم‘‘پر گامزن رہنے کی تمنا مدعائے مومن ہے۔قرآن مجید کی سورۃ الزخرف کی آیت نمبر 27 میں ارشاد ربانی ہے۔’’پس آپ اس(قرآن)کو مضبوطی سے تھام رکھیے جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے بے شک آپ سیدھی راہ پر ہیں‘‘۔’’انک علٰی صراط مستقیم‘‘کے الفاظ اعلان کرتے ہیں کہ ’’راہ محمدی‘‘ہی ’’صراط مستقیم‘‘ہے۔آیت نمبر 28 میں قرآن مجید سے تمسک کاذکر ہے۔ارشاد ہے۔’’اور یقیناً یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی امت کے لئے عظیم شرف ہے اور اس کی بابت عنقریب تم سے پوچھا جائے گا۔‘‘گویا واضح ہوا کہ ’’صراط مستقیم‘‘قرآن و سنت ہے۔ مسلمانوں نے قرآن مجید کو صرف ناظرہ اور تلاوت تک محدود کردیا۔تفہیم قرآن اور قرآنی احکامات پر عمل کرنے کی بجائے مسلکی،فقہی اور تاریخی تنازعات و اختلافات کو دین بنالیا۔ نفاذ قوانین قرآن کی بجائے ملوکیت و ملائیت کے دام ہمرنگ زمیں کے اسیر ہوگئے۔فرقہ واریت ہر دور اور ہر مذہب میں رہی۔سورۃ الزخرف میں حضرت عیسیٰ کا بھی تذکرہ ہے۔ارشاد ربانی ہے عیسیٰ ؑ حکمت و دانائی کے ساتھ قوم سے مخاطب ہوئے کہ اﷲ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور یہی’’صراط مستقیم‘‘ہے۔اﷲ کی عبادت کرو اور عبادت الہی سیدھی راہ ہے۔لیکن انکے درمیان بھی مختلف فرقے پیدا ہوگئے۔فرقہ بندی کو آیت نمبر 65 میں ظلم قرار دیا گیا اور فرقہ بازوں کو درد ناک عذاب قرار دیاگیا۔علامہ اقبال نے فرمایا تھا
؎برخور از قرآں اگر خواہی ثبات
در ضمیریش دیدہ ام آب حیات
قرآن خوانی و قرآن فہمی کا مقصد قرآن کے احکامات پر عمل کرنا ہے ۔عدل و انصاف کا قیام ہے۔توحید کی پاسداری و پاسبانی ہے۔سنت رسولؐ اعمال رسولؐ کا نام ہے۔اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی سنت رسول ہے۔رسول اﷲ کی ذات پر مناظرے کرنے کے بجائے رسول اﷲ کی تعلیمات پر عمل کرنا صراط مستقیم ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں مذہبی پیشوا امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کی ترویج و تبلیغ کی بجائے کفر و الحاد کے فتوے بانٹتے رہے ہیں۔اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کے بجائے فسادفی الارض کے علم بردار رہے ہیں۔مذہب کا بنیادی مقصد معاشرت و معیشت ،اخلاقیات و سماجیات،روحانیات وسیاسیات میں مثبت اقدار کا احیاء ہے۔دنیا کو جنت بنانا ہے نہ کہ گوشئہ جہنم۔جنت کے حصول کی خاطر دنیا کو جہنم زار بنانا،تنگ نظر اور شدت پسند مذہبی اجارہ داروں کا وظیفہ و وطیرہ رہا ہے۔سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 62 میںا رشاد ربانی ہے۔’’اور آپ ان سے بکثرت ایسے لوگ دیکھیں گے جو گناہ اور ظلم اور حرام خوری سے بڑی تیزی سے کوشاںہوتے ہیں ۔بے شک وہ جو کچھ کررہے ہیں بہت برا ہے۔‘‘ معاشرے میں برائیوں کے خاتمے کے لئے تبلیغ کار ثواب اور فریضہ علماء و حکماء ہے۔لیکن جب مذہبی پیشوا حق و باطل میں تمیز سے ہی محروم ہوں اور مقصد مذہب سے نابلد و نا آشنا ہوں تو وہ نظری و ایمانی تنازعات اور عقائد کی خرافات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ایسے مذہبی پیشواؤں کے بارے میں سورۃ الماہدہ کی آیت نمبر 63 میںارشاد ربانی ہوتا ہے۔’’انہیں روحانی درویش اور دینی علماء ان کے قول گناہ اور اکل حرام سے منع کیوں نہیں کرتے۔بے شک یہ جو کچھ کررہے ہیں بہت برا ہے۔‘‘یعنی گناہ گاروں اور بدکرداروں،ظالموں اور فاسقوں کو اعمال سیاہ سے نہ روکنا بھی برائی ہے جس کے مرتکب یہ مذہبی پیشوا ہورہے ہیں ۔ستم بالائے ستم تویہ ہے کہ یہ مذہبی پیشوا اور روحانی عاملین اصلاح معاشرہ کی بجائے فساد معاشرہ اور فریب کاری میں مبتلا ہیں۔سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 34 میں ارشاد ربانی ہے۔’’اے ایمان والو بے شک (اہل کتاب کے) اکثر علماء و درویش لوگوں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں‘‘۔علاوہ ازیں یہ علماء و شیوخ تکبر اور رعونت سے مریدوں کو روحانی غلام گردانتے ہوئے ان کا مالی و روحانی استحصال کرتے ہیں۔مریدین انکے ہاتھ پاؤں چومتے ہیں۔نذرانے چڑھاتے ہیں۔سجدہ ریز ہوتے ہیں۔توحید کے پیروکار قبروں پر سجدہ ریزی کرتے ہیں اور شیوخ کو مشکل کشا گردانتے ہیں۔یہ رسم کوئی نئی نہیں یہ ہر دور میں باعث شرک رہی ہے۔