یادش بخیر ہمارے شہر میں ایک صاحب ہوا کرتے تھے۔ ان کا اصل نام کیا تھا، یہ کم ہی لوگوں کو معلوم تھا۔ چوک نیائیں میں بجلی کی ویلڈنگ کا کام کرتے تھے۔کبھی کبھی سکائوٹ کی وردی پہن کر منہ میں سیٹی دبائے ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کیلئے چوک میں آن کھڑے ہوتے ۔ویلڈنگ کاکام کرتے کرتے انہوں نے تعمیرات کیلئے لوہے کی گرل وغیرہ بنانے کانسخہ آزمایا جو کامیاب ہوا۔کام چل پڑا۔رقم آنا شروع ہوئی تولوہے کے کام سے دل اٹھ گیا۔ اس لئے کوئی نیاکام کرنے کی ٹھانی تو ایک پرائیویٹ سکول بنانے کا ارادہ کرلیا"اولی لعزم"انسان تھے۔ فوراً ایک مکان کرایہ پرلیا۔ کچھ نیم خواندہ اور کچھ ان پڑھ قسم کا سٹاف اکٹھا کیا۔مکان کی پیشانی پر انگلش میڈیم سکول کابورڈ آویزاں کیا اور داخلے شروع ہوگئے۔بچوں کیلئے ایک عدد یونیفارم ایک بیگ اور ایسی ہی دیگر" تعلیمی زیور"قسم کی چیزیں لازمی قرار دی گئیں۔ہم نے مذاق سمجھا، مگر دو سال بعد ہی سکول کچھا کھچ بھر گیا۔ ان صاحب نے کار بھی خرید لی اور ہر پرائیویٹ انگلش میڈیم سکول کی طرح شہر کے ڈی سی اور ایس پی وغیرہ کو ہر تقریب میں بلا کر اہل علاقہ پر اپنا دبدبہ بھی بنا لیا۔اب انکے پورے نام تخلص، قبیلے اور سلسلہ تصوف کا بھی پتہ چل گیا۔ متعدد ازدواج سمیت اب انکے پاس دولت اور وسائل کی کوئی کمی نہیں ۔کمی ہے تو بس رزق حلال کی انکی "عزت" ہے تو حرام مال کی وجہ سے ہے۔ ہمارے کالج میں ایک لڑکا تھا جسے صرف کرکٹ کاشوق تھا۔ کلاس روم میں جانا یا پڑھائی وغیرہ اس کا شیوہ نہ تھا۔ شہر کے ایک مرحوم اور معروف وکیل کے بیٹے تھے۔ شائد بی اے وغیرہ بھی کرلیا ہوگا کہ اسلام آباد میںافغان مہاجرین کے کیمپوں میں "کلرک" بھرتی ہوگئے۔ زیادہ عرصہ نہ گذرا ہوگا کہ ایک نئی موٹر کار کے مالک بن گئے۔ وقت گذرتا رہا، ایک بار میں اسلام آباد تحریک استقلال کے ایک سابق راہنما سے ملنے گیا تو انہوں نے بڑے خلوص سے چائے وغیرہ سے تواضع کی۔ دوران گفتگو انہوں نے ساتھ والے بڑے بنگلے کی خوبصورتی کی تعریف کی اور کہا کہ اسکے مالک آپ ہی کے شہر گوجرانوالہ کے رہنے والے ہیں۔ مجھے ذرا سا تجسس ہوا، نام دریافت کیا تو یہ وہی لڑکاتھا جسے کرکٹ کاشوق تھا اور افغان مہاجرین کے کسی کیمپ میں کلرک بھرتی ہوگیا تھا۔صرف پانچ سال میں کرپشن کی کئی حدیں پھلانگ کروہ اس مقام تک پہنچ چکا تھا۔ایک بار جی میں آیا کہ عرصہ ہوا، اس کالج فیلو سے ملاقات نہیں ہوئی ،آج موقع ملا ہے تومل لیناچاہیئے۔ مگر جی آمادہ نہ ہوا، بلکہ جیسے بجھ ساگیا ہو۔پنجاب یونیورسٹی لاء کالج ہاسٹل کی جنت میں بھی ہمارا ایک کلاس فیلو تھا ۔کسی محکمہ کے انجینئر کا بیٹا تھا۔انجینئر صاحب کی تنخواہ تو معقول قسم کے گذارے کیلئے کافی تھی مگر یہاں تو دولت کی ریل پیل تھی۔ گلبرگ میں بڑا سابنگلہ، ذاتی استعمال کیلئے موٹر گاڑی، ہنس مکھ اور مرنجان مرنج قسم کا آدمی تھا۔بہت سی دوستیاں پالیں اور انہیں نبھایا بھی۔ امتحان پاس کرنے کے بعد وکالت شروع کی ،بہترین دفتر اور دعوتیں کرنا اسکا طرۂ امتیاز تھیں۔ پہلے وہ ایڈووکیٹ جنرل برانچ میں رہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہائی کورٹ کے جج بھی بن گئے ۔کسی چیز کی پہلے بھی کوئی کمی نہیں تھی اور اب تو باالکل ہی نہ رہی ۔بس کمی تھی تو رزق حلال کی اور عزت تھی تو دولت اور عہدے کی وجہ سے ۔لاء کالج سے فارغ التحصیل ہونیوالے اکثرطلباء بیوروکریسی میں چلے جاتے ہیں ۔جولاہور میں رہ کر وکالت کرتے ہیں وہ ایک نہ ایک دن اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل یا ہائی کورٹ کے جج بن جاتے ہیں۔جو باقی رہ جاتے ہیں انہیں بھی بہت سے "گر" آجاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک طالب علم F.I.A میں بھرتی ہوگیا۔نیابھرتی ہونیوالا ہمارایہ دوست محکمہ میں ایک نقد آور سیٹ پر متعین ہوگیا۔ مجھے نہیں یاد کہ ا کے علاوہ اس نے کسی دوسری سیٹ پر کام کیا ہو۔محکمانہ ترقی ہونے لگی مگر اسی سیٹ کے مختلف درجات پر۔ دولت عاشق ہوگئی۔جی بھر کے کمائی کی ،اتنی کہ کبھی سوچی بھی نہ ہوگی۔ پھر کارخانہ ء قدرت کا کچھ اپنا نظام بھی حرکت میں آیا تو ہمارے دوست گرفتار ہوکر جیل جا پہنچے۔جہاں کی کسی قریبی کوٹھڑی میں آصف علی زرداری بھی قید تھے ۔دونوں میں دوستی ہوگئی ،مگر برابری کی بنیاد پر نہیں آقا و چاکر کے طور پر مالی"کمیسٹری" پہلے سے ہی باہم ملی ہوئی تھی۔زرداری صاحب کی خوب خدمت کی۔ ہاں یاد آیا، انہیں دنوں اعجاز نامی ایک شخص بھی جونشئہ استعمال کرنے اور بیچنے کے جرم میں اسی جیل میں تھا اور زرداری صاحب کی بہت خدمت کرتاتھا۔ وقت بدلا۔ پرویزمشرف کی حکومت کو جسٹس افتخار اور جنرل کیانی نے وکلاء کے ذریعے ختم کرادیا، واشنگٹن نے بینظیر بھٹو ،نواز شریف اور اسفند یار ولی کے درمیان لندن میں ایک عدد"میشاق جمہوریت" کروادیا، بینظیر بھٹو شہید ہوگئیں تو "پاکستان کھپے" کا نعرہ بلند کرتے ہوئے آصف علی زرداری صدر پاکستان بن گئے۔ مگر میں جو کہانی بیان کررہا ہوں وہ آصف زرداری کے متعلق نہیں ہے۔ اس کا تعلق ہمارے اس دوست سے ہے جو F.I.A کا ملازم اور آصف علی زرداری کا جیل کا یار تھا۔زرداری تو ویسے بھی "یاروں کے یار" ہیں ۔انکے صدر بننے کے بعد اب F.I.A کے ملازم کی حیثیت سیاسی ہوگئی۔ اتنی زیادہ کہ کئی ایک سیاسی جماعتوں کے سربرا ہوں کو میں نے انکے دروازے پرکھڑا دیکھا اور وہ بعض شہرہ آفاق سیاستدانوں کے سمدھی بھی بن گئے۔اور رہا وہ شخص اعجاز جو نشئہ کرنے اور بیچنے کے الزام میں جیل آکر زرداری صاحب کی ٹانگیں دبایا کرتا تھا۔اب وہ "پیر اعجاز ــ"کے نام سے معروف ہوا۔ اس کا تعلق چونکہ گوجرانوالہ سے ہے اس لئے اسکے دربار پر بھی پیپلز پارٹی کے کئی عام کارکنوں کے علاوہ دانشور اور صاحب علم وفضل لوگوں کو بھی حاضری دیتے ہوئے دیکھا۔ دولت اور شہرت تو ہمارے F.I,Aوالے دوست اور پیر اعجاز کے پاس بھی بہت ہے اور اگر عزت ہے تو حرام مال کی ۔ہمارے گردو پیش، ایسے ایک نہیں لاکھوں کردار موجود ہیں، ہم انکے کرداروں سے بھی خوب واقف ہوتے ہیں ۔انکے معاشرتی ظلم وستم بھی ہمارے علم میں ہوتے ہیں۔ ہمیں خوب پتہ ہوتا ہے کہ یہ حرام کی دولت اس نے کب اور کیسے کمائی ہے ۔یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسکے بچوں کی رشتہ داریاں بھی جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ ہیں۔ حتیٰ کہ ہمیں انکی نمازوں کی غرض وغائت کا بھی پتہ ہوتا ہے۔ انکی چمک، رعب داب، دبدبہ کی اصل وجہ بھی ہم جانتے ہیں مگر سب سے پہلے ہم انہیں لوگوںکو عزت وتوقیر دیتے ہیں ۔ایسے لوگ کسی محفل میں آجائیں تو سب لوگ انکے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ سلام کا جواب نہ بھی دیں تو ہم آگے بڑھ کر ان کو سلام کرتے ہیں۔کوئی ایسا سفید پوش شخص جس نے زندگی بھر خود اور اپنی اولاد کے پیٹ میں کوئی لقمہ حرام نہ ڈالا ہو، جس نے صرف شرافت یا صداقت کو شعار کیا ہو،جس نے تھوڑا ہی سہی مگر اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو۔ ہمارے نزدیک توقیر واحترام کا کوئی "خاص حقدار" نہیں۔ معاشرے ایسے ہی تو تباہ نہیں ہوتے۔ ہم معاشرتی اور اخلاقی طور پر اس حدتک تباہ شدہ ہیں کہ ہم نے ایٹم بم بنالیا مگر"قطار"نہ بنا سکے۔ہم بھی کیسے "مخولیہ "لوگ ہیں۔ حبیب جالب یاد آگیا کہ یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیںمرکیوں نہیں جاتے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024