تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے جو حقیقتوں کی اصلیت چاہیے وہ جتنی بھی خوبصورت ہو یا اسکے برعکس جتنی بھی بھیانک اسکا اصل چہرہ دنیا کو دکھا کر ہی رہتا ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں اگر دیکھیں تو تاریخ اس بات کے شواہد سے بھری پڑی ہے کہ اس ملک کا سیاسی میدان ہو یا کھیل کا میدان یا کوئی اور کاروبارِ زندگی ہر جگہ ذاتی مفاد اور ذاتی عداوتیں ہمیشہ ہی اصولوں پر غالب نظر آتی ہیں اور پھر یہ عداوتیں بھی اس عروج پر کہ اگر یہ کہوں کہ پنجابی محاورے "اِٹ کتے دا ویر" کا تصویری منظر نامہ پیش کرتی نظر آتی ہیں تو نہ ہی اخلاقیات اور نہ ہی آداب اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ کوئی ایسا محاورہ رقم کر سکوں لیکن کیا کروں جب لوگ خود اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کریں تو پھر اس قسم کی سوچ یا عمل کو اگر "اِٹ کھڑکے" کے نام سے تعبیر کر دیا جائے تو ادب ہو یا اخلاقیات دونوں ہی اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی حدود یا قیود کی حاشیہ آرائی سے غالباً معذور نظر آتے ہیں۔ اب جب پختہ چیزوں کا ذکر چل ہی نکلا ہے تو ہمت کر کے چلتے چلتے یہ حقیقت بھی تسلیم کر لینی چاہیے کہ کردار کی پختگی کے حوالے سے اگر دیکھیں تو قائداعظم اور دیگر چند ایک شخصیات کو چھوڑ کر اس ملک کی تاریخ اس سلسلے میں بالکل بانجھ دکھائی دیتی ہے۔
بالغ نظری سے دیکھیں تو تاریخ کے اس کڑوے سچ سے فرار ہی اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ قارئین آج یہی ایک نقطہ میری فکری سوچوں کا محور ہے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت جس تیزی اور جس ڈھٹائی کے ساتھ ذاتی عناد اور ذاتی مفاد کی خاطر لمحوں میں اپنے موقف کی نفی کرتے ہوئے جب ہر روز نت نئے پینترے بدلتی ہے تو کیا اس فعل پر انھے کبھی کسی شرمندگی، کسی ندامت، کسی خِفت کا کبھی کوئی احساس بھی ہوتا ہے یا پھر وہی کہ لگے رہو منا بھائی۔ کیا ضمیر نام کی کسی چیز نے کبھی اْنکے دل و دماغ کے دروازے پر دستک بھی دی ہے۔ دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ اخلاقی اقدار سے فرار یہ معاشرتی قدروں کا قحط الرجال ، یہ نفسانفسی کا دور کب سے ہمارا مقدر ٹہرا۔ اسکا جواب ڈھونڈنے کیلئے ہمیں تاریخ پر ایک نظر ڈالنا ہوگی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے اس خطے کے باسیوں نے ہمیشہ طاقتور کا ساتھ دینے میں ہی اپنی بہتری جانی ہے جسکے بدلے میں طاقت کے مدار مراعات کے زمرے میں جاگیروں اور خطابات کی صورت میں انہیں تھوڑی بہت خیرات سے نوازتے رہے۔ پاکستان بننے سے پہلے یہ حسنِ سلوک صرف یہاں کی مخصوص اشرافیہ کے نصیب میں ہی لکھا تھا لیکن پاکستان بننے کے ساتھ ہی متروکہ وقف املاک کی الاٹمنٹ کی صورت میں مراعات کی یہ لعنت مخصوص طبقات سے عوامی طبقے کی طرف منتقل ہونا شروع ہو گئی۔ اس مراعات یافتہ طبقے کو آج سے کچھ سال پہلے تک 1947ء کے رئیسوں کے نام سے جانا اور پکارا جاتا تھا لیکن اخلاقی اقدار اس دور میں بھی معاشرے کا اس حد تک اِحاطہ کیے ہوئے تھیں کہ لوگ باکردار شخصیات کی راہنمائی کو اپنی خوش بختی سے تعبیر کرتے تھے۔ اللہ بھلا کرے سابق جنرل ایوب خان کے بی ڈی ممبرز کے نظام کا جس میں بی ڈی ممبرز کے الیکٹرول ووٹ حاصل کرنے کے لیئے صدر ایوب نے نچلی سطح پر ان ممبران کو راشن ڈپوں کی الاٹمنٹ کی صورت میں عوامی سطح پر کرپشن سے متعارف کرایا جنہوں نے ایک طرف آٹے اور چینی کی بلیک کو اپنا پیشہ بنایا تو دوسری طرف نالیوں اور سڑکوں کے ٹھیکوں سے اپنے ہاتھ رنگنے شروع کیے۔ گو کہ اس دور میں امپورٹ لائسنسوں کی فروخت اور گندھارا موٹر کے سکینڈلز نے کچھ بڑے پاکبازوں کے دامن پر بھی سیاہ دھبے چھوڑے لیکن اس دور میں بھی اخلاقی قدریں اتنی بے توقیر نہیں ہوئی تھیں کہ چور اْچکا چوہدری لْنڈی رَن پردھان والا محاورہ سچ ثابت ہوتا البتہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں سے اس دور کی شروعات ہوتی ہے جہاں کردار کی جگہ گفتار نے اپنا کام دکھانا شروع کیا لیکن پھر بھی یہ وہ دور تھا جب دفتری بابو دفتر میں اجلا لباس پہن کر جانے سے ڈرتا تھا کہ کہیں کرپشن کے الزام کا دھبہ اسکا دامن داغدار نہ کر دے فوجی کپتان اگر یاماہا 70 لے لیتا تھا تو سارا دن یہ صفائی ہی پیش کرتے تھک جاتا تھا کہ یہ موٹر سائیکل اسے جہیز میں ملی ہے یا پھر والد صاحب نے زمین بیچ کر لے کر دی ہے۔ بیورو کریٹ کی اپنی ایک شان، پہچان ہوتی تھی۔ تباہی کے اس سفر کی اگلی داستان اس وقت رقم ہوتی نظر آتی ہے جب محترم ذولفقار علی بھٹو نے اپنے عوامی دور کا آغاز کیا جہاں بی ڈی ممبروں کی بجائے پیپلز پارٹی کے ضلعی اور وارڈ کے صدور کو راشن ڈپوں اور سیمنٹ کی ایجنسیوں سے نوازا گیا۔ اس سے بڑھکر جس چیز نے اس ملک کو نقصان پنچایا وہ تھا عوامی سطح پر اختیارات کی تقسیم کا بھٹو کا فلسفہ۔ بھٹو کی اس سوچ کے پیچھے کیا راز پوشیدہ تھا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ بھٹو کی اس مثبت سوچ سے ہمارے سماج کی اکثریت نے بڑی بیدردی سے فائدہ اْٹھایا اور اخلاقیات کی شکل اسقدر بگاڑ دی کہ شرفاء کو اپنی عزت بچانی مشکل ہو گئی لیکن انتہائی احتیاط کے ساتھ عرض کروں کہ اس موڑ پر بھی مالی معاملات کے حوالے سے ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آتے جس سے Institutional کرپشن کا کوئی تاثر اْبھر سکے اور نہ ہی بھٹو صاحب کی اپنی ذات کے حوالے سے کوئی ایسی علامات یا شواہد سامنے آتے ہیں جنکی روشنی میں اْن پر کوئی اْنگلی اْٹھائی جا سکتی ہو یہ الگ بات ہے کہ سازشی تھوریوں کے راقموں نے اْن دنوں بھی بھٹو صاحب اور مصطفی کھر کے اختلافات کو ایسے رنگوں میں رنگنے کی بہت کوششیں کی لیکن تاریخ نے سچ ثابت کر دکھایا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی البتہ جب جنرل ضیاالحق کے دورِاقتدار کی شروعات ہوتی ہے تو جس طرح پر پہلے مجلسِ شوری اور پھر غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ارکانِ اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کے نام پر لاکھوں اور کروڑوں روپے کے فنڈز سے نوازا گیا اس سے منتخب ارکان پارلیمنٹ institutional level پر پہلی دفعہ organised کرپشن سے آشنا ہوئے۔ … (جاری)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024