وزیراعلی پنجاب جناب شہباز شریف کی یہ خوبی انہیں دوسرے وزرائے اعلی سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ عوام کی حق تلفی کی خبر ملتے ہی نہ صرف یہ کہ ’’جائے واردات‘‘ پر بہ نفس نفیس جا پہنچتے ہیں بلکہ سماجی اور افسر شاہی زیادتی کا ازالہ بھی کرتے ہیں۔ شاید یہ بات وزیراعلی موصوف کے علم میں نہیں ہے کہ صدیوں پرانی بنجر قدیم‘ برباد اور ناکارہ اراضی کو آباد کرنیوالے پٹہ داروں کی تین نسلیں کس پریشانی کا شکار ہیں۔ اس پریشانی اور غیر یقینی صورتحال کے نتیجے میں حیوانات کی افزائشی منصوبے کن خطرات سے دوچار ہیں۔ بنجر قدیم‘ برباد‘ ناکارہ اراضی کے الفاظ ہمارے ایجاد کردہ نہیں ہیں بلکہ خود حکومت کے جاری کردہ پٹہ نامہ میں درج ہیں۔
لائیو سٹاک بریڈنگ سکیم 1960ء کے تحت 85 سے 300 ایکڑ تک بنجر قدیم ٹیلوں پر مشتمل سرکاری پنجاب بھر میں 35 کے لگ بھگ خاندانوں کو الاٹ کی گئی تھی۔ الاٹیوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ان ریتلے بے آب و گیاہ ٹیلوں کو ہموار کرکے اراضی کو قابل کاشت بنائیں۔ یہ لازم قرار دیا گیا کہ الاٹی ساہیوال نسل کی گائیوں کے فارم بھی بنائیں۔ ایک ظالمانہ پابندی یہ بھی تھی کہ ان بنجر قدیم ریتلے ٹیلوں کو قابل کاشت بننا پٹہ داروں کیلئے لازم ہو گا لیکن انہیں نہری پانی استعمال کرنے کا حق ہرگز حاصل نہیں ہو گا۔ آج سے 56 سال قبل جب پٹہ دار الاٹ شدہ اراضی پر پہنچے تو دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کہ الاٹ شدہ اراضی کے بنجر پن کی انتہا یہ ہے کہ کہیں ایک درخت تک دکھائی نہیں دے رہا۔ شروع شروع میں ٹیلوں پر خیمے لگا کر آباد کاری کا آغاز کیا گیا۔ الاٹیوں نے اپنی آبائی ملکیتی اراضی فروخت کرکے ریتلے ٹیلوں کو ہموار کرنے کا جان لیوا کام شروع کیا اور سالہا سال کی لگاتار محنت اور سرمایہ کاری سے اراضی قابل کاشت بنانے کا فریضہ سرانجام دینے لگے۔ مکانات‘ فارم گھر تعمیر کئے۔ مطلوبہ تعداد میں جانور خرید کر فارم ہاؤس بنائے۔ سب سے زیادہ مشکل اچھے پانی کی تلاش میں پیش آئی۔ لاکھوں کے اخراجات کے بعد بھی بہت سے مقاjات پر زیر زمین پانی نمکین یا کڑوا نکلتا ہے۔ ان مقامات کو چھوڑ کر نئے مقامات تلاش کرنے پڑے۔ جہاں کہیں فصلات کیلئے مفید پانی نکلا۔ وہاں ٹیوب ویل لگائے گئے۔ بیس سال کی پہلی مدت پٹہ میں لاکھوں روپے کے اخراجات کے بعد بھی پوری اراضی ہموار نہ ہو سکی۔ جو اراضی ہموار ہوئی اس پر فصلوں کی پیداوار ملحقہ نہری اراضی کے نصف سے بھی کم حاصل ہوتی رہی کیونکہ بنجر قدیم زمین کم زرخیزی کا معیار نہری اراضی کی نسبت کم تر تھا۔ پہلے یہ کہ ہر سال ہزاروں روپے بجلی بلوں کی صورت میں بھی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اب یہ بل بیس تیس ہزار سے بڑھ کر ستر سے اسی ہزار روپے ماہوار تک آرہے ہیں۔ بل دیکھتے ہی پٹہ داروں کی دھڑکنوں میں زلزلہ سا آجاتا ہے۔
دیکھ کر اس کو دہل جاتا ہے دل
ٹیوب ویل کا جس گھڑی آتا ہے بل
شرائط پٹہ میں درج ہے کہ اگر شرائط پوری کی گئیں تو پٹہ میں دس سال کی توسیع کر دی جائے گی۔ شرائط پوری ہونے کے باوجود پہلی مدت بیس سال گزرنے کے بعد نوکر شاہی نے ’’مخصوص مقاصد‘‘ کے تحت توسیع کا معاملہ دس سال تک لٹکائے رکھا۔ بعدازاں سن 2000 تک پٹہ توسیع کے احکامات جاری کر دیئے گئے۔ توسیع شدہ مدت کے دوران بھی انچارج سکیم محکمہ لائیوسٹاک کے ریکارڈ پر شرائط پٹہ کی خلاف ورزی کی کوئی شکایت موجود نہیں ہے۔ توسیع پٹہ کی درخواستوں کے باوجود بورڈ آف ریونیو سے توسیع نہ ملنے پر پٹہ داروں نے عدالتی کارروائی کا سہارا لیا جو کہ اب دیوانی عدالتوں کے سبب سپریم کورٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ گذشتہ پندرہ سال میں غیر یقینی حالات کے سبب نہ تو زیر پٹہ اراضی کی آبادکاری پر مطلوبہ محنت ہو سکی ہے اور نہ ہی افزائش حیوانات کے کام کو آگے بڑھایا جا سکا ہے جبکہ پٹہ دار بیدخلی اور دیوالیہ پن کے اندیشوں میں ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ پٹہ دار پروڈیوس انڈکس یونٹس کے حساب سے ادائیگی کرکے خریداری اراضی کیلئے درخواستیں بھی بارہا لے چکے ہیں لیکن بورڈ آف ریونیو مستحق پٹہ داروں کو اراضی فروخت کرنے کے بجائے اسے نیلام کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اگر اس پالیسی پر عمل ہوا تو چند پٹہ دار جو اپنی جدی جائیداد فروخت کرکے زیر پٹہ اراضی کی آباد کاری پر لگا چکے ہیں نہ صرف یہ کہ بے گھر ہو جائیں گے بلکہ تمام مویشی فارم بھی برباد ہو جائیں گے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زیر پٹہ اراضی کے بہت سے پٹہ داروں کی تیسری نسل کا نان نفقہ اسی اراضی سے چل رہا ہے۔
جہاں سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کا حوالہ بھی ضروری ہے۔ … نیام … کیس میں مورخہ … کو فل بنچ نے حکم صادر فرمایا تھا کہ اگر کوئی شخص 55 سال سے سرکاری اراضی پر موجود ہے اور اس نے زیر قبضہ بنجر اراضی کو قابل کاشت بنایا ہے۔ تو کوئی قانونی حق نہ ہونے کے باجود اس کی محنت کی قدر کرنا چاہیے اور اسے مالکانہ حقوق دیئے جانے چاہیں۔ وزیراعلی پنجاب صاحب سے درخواست ہے لائیوسٹاک بریڈنگ سکیم 1960ء کے حقدار پٹہ داروں کو حقوق ملکیت دینے کیلئے بورڈ آف ریونیو کے افسران کو ہدایات جاری فرمائیں۔ آپ تو مشکلیں آسان کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔
مشکلیں آباد کاروں کی بھی آسان کیجئے
سب پریشان پٹہ داروں پر یہ احسان کیجئے