امریکہ کے 35ویں صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی اہلیہ جیکولین کےساتھ 1961ءمیں 31 مئی سے تین جون تک فرانس کا دورہ کیا۔ اس وقت کینیڈی کی عمر 44 اور جیکولین کی 32 سال تھی۔ اس دورے کا کلائمیکس نوجوان جوڑے کے اعزاز میں ورسائی میں دیا جانیوالا سٹیٹ ڈنر تھا۔ اس ڈنر کی خاص بات یہ تھی کہ نوجوان امریکی صدر کینیڈی اور 71 سالہ فرانسیسی صدر ڈیگال کے درمیان ٹرانسلیٹر کے فرائض جیکولین نے ادا کئے تھے۔ اسے فرنچ زبان پر عبور تھا… ایک موقع پر فرانسیسی خاتون اول نے صدر کینیڈی کی گھڑی کی تعریف کی تو کینیڈی نے گھڑی اتار کر یونے ڈیگال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ہم امریکیوں کی روایت ہے کہ میزبان کو کوئی چیز پسند آ جائے تو اسے گفٹ کر دیتے ہیں۔ اس مکالمے سے ڈیگال نے محظوظ ہوتے ہوئے کینیڈی سے کہا مسٹر پریذیڈنٹ آپکی اہلیہ بڑی خوبصورت ہیں!
صدر کینیڈی کو سود خوروں نے 22 نومبر 1963ءکو قتل کرا دیا۔ 1968ءمیں جان ایف کینیڈی کے بھائی رابرٹ کینیڈی کو بھی قتل کر دیا گیا تو جیکولین کو اپنی اور بچوں کی سکیورٹی کی فکر لاحق ہوئی اس نے امریکہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور ا±س دور کے دنیائے جہازرانی کی صنعت کے بے تاج بادشاہ یونان سے تعلق رکھنے والے ارسطو اوناسس سے شادی کر لی۔ اوناسس کی عمر ا±س وقت 68 سال تھی۔ اس نے شادی پر جیکولین کو تین ملین ڈالر اور اسکے دونوں بچوں کو ایک ایک ملین تحفتاً دئیے تھے۔
ارسطو اوناسس جس کی دولت کا خود اسے اندازہ نہیں تھا، آخری عمر میں اسکی آنکھوں پر اوپر سے ماس ڈھلک آیا تھا۔ کچھ بھی دیکھنے کیلئے اسے آنکھیں ہاتھ سے کھولنا پڑتی تھیں۔ اس سے کسی نے سوال کیا کہ اس قدر دولت رکھنے کے باوجود کوئی ایسی خواہش جو بدستور دل کے نہاں خانے میں موجود ہے؟ اس پر اوناسس کی آواز بھرائی اور آنکھوں کے اوپر چڑھے گوشت کے دبیز پردوں کے کسی کونے سے آنسوﺅں کی پتلی سی لکیر نمودار ہو کر رخسار پر آ گئی۔ اس نے کہا ”میری خواہش ہے کہ میں آنکھیں جھپک سکوں“۔ سوال کرنیوالے نے پھر پوچھا ”اسکے عوض آپ کیا دے سکتے ہیں“ تو اوناسس نے حسرت بھرے لہجے میں کہا ”آدھی دولت بلکہ اس سے بھی زیادہ“۔
انسان ہیرے جواہرات سے مرصع کروڑوں روپے کا بیڈ خرید سکتا ہے تختِ طاﺅس بنوا سکتا ہے۔ اطلس وحریر کے بستر لگوا سکتا ہے لیکن نیند نہیں خرید سکتا۔ بڑا دولت مند ہو گا تو مہنگی ترین ادویات تک دسترس پا لے گا، دنیا کے بہترین ڈاکٹروں تک رسائی حاصل کر لے گا بڑے سے بڑا ہسپتال خریدنے کی استطاعت بھی ہو سکتی لیکن صحت قیمتاً نہیں مل سکتی۔ جائیدادیں بے شمار، دولت کے انبار اندرونِ و بیرونِ ملک اکاﺅنٹس کی بھرمار مگر کیا گارنٹی کہ ایک روپیہ بھی استعمال کرنا مقدر میں ہو۔ آج دنیا کا سب سے زیادہ قابلِ احترام شخص وہی ہے جو دنیا کا امیر ترین بھی ہے۔ اسکی زندگی میں کوئی اضطراب ہے نہ بے سکونی۔ یہ بل گیٹس ہے۔ اسکے اثاثوں کی مالیت 80 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اس نے محلات، قلعے، بنگلے اور پلازے کھڑے نہیں کئے۔ وہ فلاحی رفاعی اور سماجی کاموں کیلئے آدھی سے زیادہ دولت عطیات میں دے چکا ہے۔ اس نے اپنے اثاثے فلاحِ انسانیت کیلئے وقف کر دیئے ہیں ۔اس نے حضور کی تعلیمات کی پیروی کی۔ملک ریاض کے دستر خوان پھیلتے جارہے ہیں۔
یہاں ایک طرف بقعہ نور بنے ہوئے محلات تو دوسری طرف ٹپکتی تاریک اور ہَوا کے دوش پر کھڑی جھونپڑیاں، ایک طرف کتوں اور گھوڑوں کیلئے انواع و اقسام کی خوراکیں دوسری طرف دو وقت کی سوکھی روٹی کے بھی لالے ہیں،انسان کچرے کے ڈھیروں سے خوراک تلاش کرتے ملیں گے۔ ایک طرف طاﺅس و رباب، شہنائیوں کی گونج اور زندگی رقصاں ہے ،دوسری طرف انسانیت بلک اور سسک رہی ہے۔جائز کمائی سے کسی کے امیر ہونے پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا مگر انسانوں کا خون چوس کر تجوریاں بھرنے والے ا نسانت کے دشمن ہیں اور یہ پاکستان میں چند ایک نہیں ہزاروں میں ہیں۔
مجھے اس بپتا کا اعادہ ساہیوال سے رانا ریاض احمد کا خط پڑھ کر کرنا پڑا۔ ان کو گلہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے گذشتہ سال بجٹ میں مزدور کی کم از کم تنخواہ 12 ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا مگر اس پر عمل نہیں ہو رہا۔ بہت کم پرائیویٹ ادارے اس حکومتی پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔ وہ بھی بغیر کسی دبا¶ کے محض خدا خوفی کے باعث۔ کئی ڈاکٹرز کی روزانہ آمدن 50 ہزار سے لاکھ روپے ہے مگر ورکرز کی تنخواہ چھ سات ہزار سے زیادہ نہیں۔ اکثرپرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اندھیر مچا ہے، چپڑاسی اگر رکھا ہے تو تین ساڑھے تین ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ اساتذہ کو چھ سات ہزار دیئے جاتے ہیں۔ پٹرول پمپس کے مزدوروں کی تنخواہیں سات ہزار سے زیادہ نہیں۔ فیکٹری اور کارخانوں کے مزدوروں کے ساتھ ناانصافی نہیں ظلم ہوتا ہے۔ جن صنعتی اداروں میں یونین نہیں وہاں مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔مزدور جہاں بھی ہے۔ مل میں ہے‘ ورکشاپ میں ہے‘ بھٹے پر ہے ، دکان پر‘ سکول و کالج میں ہے یا پرائیویٹ ہسپتال اور بنک میں‘ کہیں بھی ہے وہ انسان ہے اور اس کے انسانی حقوق ہیں جس کا تحفظ سرکار نے کرنا ہے۔ آج کی حکومت نے سابقون کی طرح مزدور کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے اورآجر کے حالات پر اجیرقادر ہے جوآجر کیلئے کبھی سازگار نہیں ہوتے۔ حکومت نے 12 ہزار تنخواہ کےلئے قانون سازی کا وعدہ کیا تھا جو اسے پورا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ چند ماہ میں یہ بجٹ آنے والا ہے۔ جس میں ممکنہ طور پر مزدور کی کم از کم تنخواہ بارہ سے بڑھا کر 15ہزار کر دی جائےگی۔ آپ تنخواہ پچاس ہزار کر دیں جب یہ مزدور کو ملنی ہی نہیں ہے تو پھر ایسے اعلانات کا فائدہ کیا ہے۔ رانا ریاض نے کہا ہے کہ اگر حکومت نے مزدور کی کم از کم تنخواہ 12 ہزار کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی نہ کی تو وہ پنجاب اسمبلی کے سامنے تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کرینگے۔رانا ریاض ماشاءاللہ صاحب حیثیت ہیںوہ غریب مزدور کی زندگی میں کسی حد تک آسانی پیدا کر نے لئے سرگرداں ہیں۔ ایسی ہڑتال کی نوبت نہیں آنی چاہئے۔
امیر سوچیں خدا نے انہیں اتنی دولت سے نوازا ہے اس میں سے مزدور کو اس کا حق دیں۔ آخر سکندر خالی ہاتھ گیا۔ سعودی عرب کے شہنشاہ عبداللہ ساتھ کچھ نہیں لے گئے اور پھر اوناسس پر کیا آپ کو ترس نہیں آتا جو آنکھوں کے ہوتے ہوئے اور دولت کے انباروں کا مالک ہونے کے باوجود دنیا دیکھنے کیلئے کس مشکل کا شکار تھا۔ظالم اجیراور سیٹھ ڈریں اس وقت سے کہ کوئی مرض آن گھیرے اور پوری دولت سے بھی اسکا مداوہ نہ ہوسکے۔ ایک پاں( سارے جسم کی خارش) سے بچنے کیلئے پوری دولت تیاگ دینے پر بھی تیار ہوجائینگے۔