گونگلو سے مٹی جھاڑنا کیا ہوتا ہے
سگریٹ کی ڈبی پر حکومت کی جانب سے ایک انتباہ درج کیا گیا ہے۔ ”تمباکو نوشی کا انجام ‘ منہ کا کینسر“ وزارت صحت حکومت پاکستان اس انتباہ کو ہم گونگلو سے مٹی جھاڑنے کے سوا کچھ نہیں سمجھتے کیونکہ ڈبی پر ایک کریہہ النظر فوٹو لگانے کے علاوہ تمباکو نوشی کی روک تھام کیلئے کوئی سدباب نہیں کیا گیا۔ پچھلے دنوں سگریٹ کے بعض برانڈز پہ قیمتیں بھی کم کر دی گئیں اور وہ جو ایک پابندی لگائی گئی تھی کہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو سگریٹ فروخت نہیں کی جائے گی۔ اس کو بھی کچھ ہی عرصے میں لپیٹ کر کہیں بکسے میں رکھ دیا گیا ہے اور کم عمر بچے بھی کھلے عام سگریٹ خریدتے اور پیتے نظر آتے ہیں۔ وزارت صحت کی اطلاع کیلئے مزید عرض ہے کہ سگریٹ کے علاوہ بھی مارکیٹ میں اشیائے خورد و نوش اور کاسمیٹکس کے نام پر سینکڑوں جعلی مصنوعات گردش میں ہیں جن کے استعمال سے کینسر کا نہ صرف شدید خطرہ ہے بلکہ معاشرے میں یہ مرض اب نزلہ زکام کی طرح عام ہو چکا ہے۔ جعلی لال مرچ سے لے کر شربت‘ چائے کی پتی‘ ہلدی‘ ناقص گھی‘ ناقابل ہضم آٹااسکے علاوہ معصوم بچوں کو فروخت کی جانے والی جعلی ٹافیاں ‘ نمکو‘ چپس‘ جوس اور بسکٹ جو کہ قدرتی اشیاءکی بجائے کیمیکل کے ذریعے بنائے جاتے ہیں۔ ہماری کالونی کے پاس ایک بستی میں بہت سے گھروں میں یہ مصنوعات تیار ہوتی ہیں جو کہ بڑی کمپنیوں کے جوس کے خالی ڈبوں میں یا بوتلوں میں پیک کرکے فروخت ہوتے ہیں۔ پانی کو ابال کر اس میں چینی اور ایک پا¶ڈر ملاتے ہیں جس سے یہ پانی جوس کی طرح گاڑھا بھی ہو جاتا ہے اور خوشبو بھی اسی طرح ہوتی ہے جیسی خالص پھلوں سے آتی ہے۔ اسی طرح خوبصورتی کیلئے استعمال ہونے والی مصنوعات بھی گھروں میں تیار کی جاتی ہیں۔
ایسی کریمیں بازار میں دستیاب ہیں جن پر ایسے دعوے لکھے ہوتے ہیں کہ ایک ہفتے میں گورا رنگ یا داغ‘ کیل‘ دانے ختم۔ اصل میں ان میں سٹیرائڈز ملا کر فوری اثر دینے کی طاقت بڑھائی جاتی ہے۔ کہیں بائیس کریموں کے مجموعے کے نام سے اور کہیں بتیس کریموں کے مجموعے کے نام سے یہ زہر عام دستیاب ہے ان کریموں کے استعمال سے پہلے تو بظاہر جلد سفید اور اچھی لگنے لگتی ہے مگر کچھ عرصہ بعد یہ جلد باریک اور جھلسی سی لگنے لگتی ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ جلدی امراض اور پھر کینسر تک معاملہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ ان جعلی اشیاءکے استعمال سے جسم اور جلد کے خلیات کے مرنے کی رفتار تیز ہو جاتی ہے اور انہی مردہ خلیات کے ایک دوسرے پر جمع ہو جانے اور نئے خلیات نہ بننے کے باعث کینسر کا مرض وجود میں آتا ہے۔ گھروں میں مضر صحت اشیاءدیدہ دلیری سے بن رہی ہیں اور متعلقہ کچھ ادارے جن کا کام چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہے اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ہر مہینے چھاپہ مارنے کے نام پر ماہانہ یعنی بھتہ مقرر کروا کر ”توں لنگ جا‘ ساڈی خیر ہے“ کا بورڈ لگا دیتے ہیں۔ جیو اور جینے دو شاید اسی کو کہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭