ملک کے شماریات بیورو کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ کا تیرہ سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ یہ شرح 8.3 فیصد ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ حکومتی وزراء نے رواں مالی سال میں اس شرح میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔ ایک قومی خبررساں ایجنسی کے حوالے سے نوائے وقت میں شائع ہونیوالی شماریات بیورو کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کے اب تک کے دو سالہ دورحکومت میں بیروزگاری میں اضافہ کے حوالے سے قومی اقتصادی کونسل میں جو رپورٹ پیش کی گئی‘ اسکے مطابق جب سابق جنرل پرویزمشرف نے 2002ء میں اقتدار سنبھالا تو اس وقت بیروزگاری کی شرح 8.3 فیصد تھی جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں اس میں خاطرخواہ کمی دیکھنے میں آئی جوکہ 5.2 فیصد تھی جبکہ 2013ء میں صرف ایک فیصد اضافہ کے ساتھ 6.2 تک پہنچی مگر موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بیروزگاری کی شرح میں بتدریج اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر احسن اقبال نے بڑی سچی اور کھری بات یہ کی ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران میں بیروزگاری ایک مسئلہ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ معاشی ترقی کا بہتر نہ ہونا ہے۔ اگر حکومت نے آئندہ برس ترقی کے ہدف کی شرح 5.5 کو عبور نہ کیا تو بیروزگاری کی شرح 8.3 فیصد سے 8.6 فیصد تک بڑھ جائیگی۔حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ موجودہ حکومت کی ملکی اور قومی تقاضوں سے قطعی طورپر برعکس معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں دو سال کے دوران بیروزگاری کی شرح میں 6.2 سے بڑھ 8.3 تک اضافہ ہو گیا۔ اگرچہ قومی معیشت کی تیزی سے روبہ زوال ہونے کی بڑی وجہ توانائی کا ایسا بحران ہے جس کے حل کی طرف ارباب اقتدار کی کوئی توجہ نہیں۔ اس کے نتیجے میں صنعتوں کے قیام کا راستہ بند ہونے سے ملک میں روزگار کے مواقع مسدود ہو چکے ہیں۔ غریب قوم کے خون اور پسینے کی جو کمائی توانائی سیکٹر کی بہتری اور اصلاح کیلئے صرف کی جانی چاہئے تھی‘ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مخصوص مفادات کیلئے قومی خزانے کی ایسی گراں قدر رقوم کو ایسے منصوبو ںپر اڑائے چلی جا رہی ہیں جن کا بھوکے ننگے فاقہ کش اور بیروزگار کروڑوں لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں۔ محض ذاتی نام و نمود کی خاطر ارباب اختیار کی طرف سے اس قسم کے دعوے اور نعرے لگائے جاتے ہیں کہ وسائل قوم کی امانت ہیں اور ایک ایک پائی امانت سمجھ کر خرچ کی جائیگی۔ مگر حقیقت میں قومی وسائل قوم کی حالت بدلنے کیلئے صرف نہیں کئے جا رہے۔ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی آبادی ملک کے تینوں صوبوں بلوچستان‘ سندھ اور سرحد کی مجموعی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔ پنجاب کے عوام کا مسئلہ یہ نہیں کہ اسکی گلی محلوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے مانیٹر کرنے یا کسی نئے کمیونیکیشن سنٹر کا قیام عمل میں لاکر عوام کے ٹیکسوں کو ضائع کرنے کے منصوبے بتائے جائیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ صوبائی وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید نے غالباً کسی کی خوشنودی کی خاطر اس جھوٹ کو سچ کی زبان دینے کی کوشش کی ہے کہ رمضان بازار نہ ہوتے تو مہنگائی کا طوفان آجاتا۔ غالباً ڈاکٹر صاحب کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ پنجاب کے کروڑوں عوام کتنے شہروں‘ قصبوں اور دیہات میں فروکش ہیں اور حکومتی نام نہاد رمضان اور اتوار بازاروں کی تعداد عوام اور صوبہ بھر کی آبادیوں کی مناسبت سے کتنی ہے؟ یا صوبے کے کل عوام میں سے کتنے فیصد غریب اور قلاش عوام ان بازاروں سے استفادہ کرتے ہیں۔ جہاں بکنے والی کسی بھی ایک سبزی‘ پھل‘ دالوں‘ چکن اور انڈوں کو خریدنے کی وہ لوگ استطاعت ہی نہیں رکھتے ورنہ ان قسمت کے ماروں کی مت ماری گئی ہے کہ سادہ پانی سے افطاری کریں۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ملک بھر میں انگلیوں پر گنے جانیوالے چند بزرجمہر جو ایوان اقتدار کے مکینوں کی خوشنودیٔ طبع کیلئے رمضان بازار میں ضروریات زندگی کی مہنگائی میں کمی اور عوام کو ایسے بازاروں سے ’’عوام کو ریلیف‘‘ ملنے یا دینے کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ سبھی حکمرانوں کے مراعات یافتہ لوگوں اور مخصوص مفادات کے حامل افراد پر مشتمل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک ذخیرہ اندوزوں‘ گراں فروشوں اور ناجائز منافع خوروں کا تعلق ہے‘ وہ ہر عہد اور ہر دور میں اپنی ڈگر برقرار رکھنے سے کبھی نہیں چوکتے۔ انہوں نے تو ہر حالت میں اپنے لئے جہنم کو اپنے لئے مخصوص کرنا ہوتا ہے۔ ایسے بدبخت عناصر کے سدباب اور انہیں اپنی قبیح حرکت سے باز رکھنے کیلئے ارباب اقتدار کو اقدامات اٹھانے ہوتے ہیں مگر ارباب حکومت دانستہ طورپر ایسے لوگوں کو راہ راست پر لانے سے اس لئے گریزاں ہے کہ وہ ایسے بد نہاد طبقے کی سیاسی حمایت سے محرومی برداشت کرنے کے خواہاں نہیں۔گزشتہ صرف چند ماہ کے دوران اسی حواس باختہ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آکر کتنے مردوں اور خواتین نے خودکشیاں کیں۔ ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس معاملے میں عوام کی چیخ و پکار بھی مسند نشینوں کے کانوں تک پہنچتی رہتی ہے مگر خدا معلوم زمامِ اقتدار سنبھالے ہوئے مخلوق کس مٹی سے بنی ہوئی ہے کہ ان پر عوامی احتجاج کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ نہ ہی انکے سینے میں دھڑکنے والا دل کروڑوں فاقہ کش بچوں‘ بوڑھوں‘ مردوں اور خواتین کی آہوں اور سسکیوں سے پسیجتا ہے۔ کاش انہیں اس حقیقت کا ادراک ہوتا کہ اس ملک کی رونقیں عوام سے ہیں۔ عوام خوشحال اور اطمینان و سکون کی زندگی سے ہمکنار ہونگے تو ملک خوشحال سمجھا جائیگا۔ پاکستان کی معیشت مضبوط تصور ہوگی۔یہ حقیقت ارباب حکومت کے سمجھنے کی ہے کہ قوموںسے وطن بنتے اور خوشحال قومی ہی وطن کو مقام رفیع سے ہمکنار کرتی ہیں۔ اس قسم کے جہان سنگ و خشت سے پیدا نہیں ہوا کرتے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024