کسی بھی ملک کی بقاو سلامتی اور استحکام میں فوجی قوت مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کو جب بھی کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا ہمارے بہادر، غیور جیالوں نے جان ہتھیلی پر رکھے دشمن کے ہر وار کا منہ توڑ جواب دیا اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے لیکن وطن کی بقاء پر آنچ نہ آنے دی اور اپنے لہو سے ایسی تاریخ رقم کی جو آج بھی ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ لیکن ہزار ہا قربانیوں کے باوجود آج بھی پاک فوج کو گونا گو مسائل کا سامنا ہے۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جسکی سب سے بڑی متحرک جنگی سرحد ہے جو 3600 کلو میٹر پر محیط ہے لیکن صد افسوس پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جسے بیک وقت تین جنگی محاذوں کا سامنا ہے جن سے بہت کم لوگ شناسا ہیں ۔صف اول میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کی جنگی حکمت عملی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن ہے جسکے لئے بھارت کی کل فوج کی سات میں سے چھ کمانڈ یعنی 60 فیصد سے زائد فوج پاکستانی سرحد پر متعین ہے اور اس ڈاکٹرائن کیلئے بھارتی فوج فوجی نقل و حمل کیلئے سڑکوں پلوں، ریلوئے لائنوں اور اسلحے کے بڑے بڑے ذخائر کی تعمیر میں برق رفتاری سے مصروف ہے۔ اس ڈاکٹرائن کے ذریعے بھارت سندھ میں جہاں اسے جغرافیائی گہرائی حاصل ہے‘ وہاں داخل ہو کر سندھ کو پاکستان سے کاٹتے ہوئے بلوچستان کے راستے گوادر کی طرف بڑھنے کا پروگرام رکھتا ہے جہاں مقامی طور پر اسے سندھ میں جسقم اور بلوچستان میں بی ایل اے کی حمایت حاصل ہوگی۔ انہی گھٹیا عزائم کی تکمیل کیلئے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نہ صرف افغانستان کے ذریعے پاکستان میں موجود دہشت گردوں کی معاونت کرتی ہے۔ بلکہ دیگر غیر انسانی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہے۔ پاکستانی حکام کو ملے ٹھوس شواہد کے مطابق بھارت پاکستان میں عدم استحکام کیلئے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں میں ملوث ہے۔ پاکستان میں بدامنی اور انتشار پھیلانے کیلئے بھارت نہ صرف دہشت گردوں کی مکمل حمایت کرتا ہے بلکہ انہیں خصوصی تعلیم و تربیت کے بعد افغانستان کے راستے پاکستان بھیجتا ہے۔ خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق افغانی اور بھارتی شہری ایک دوسرے کے ممالک کا زیادہ دورہ نہیں کرتے لیکن اسکے باوجود بھارت نے قندھار، ہرات جلال آباد اور مزار شریف میں قونصل خانے بنا رکھے ہیں ان میں سے دو قونصل خانے پاکستان سرحد سے ملحق ہیں جہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ سفارتی اہلکار تعینات ہیں۔ بھارت نے اپنی عیارانہ روایت کو برقرار کھتے ہوئے افغانستان میں تعمیرنو کی آڑ میں بظاہر افغانستان میں مختلف ترقیاتی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ لیکن پس پردہ اسکا مقصد صرف اپنے قبیح اور مذموم مقاصد کو پورا کرنا ہے۔ نائن الیون کے بعد رورل ڈویلپمنٹ کیلئے بیورو آف انڈین سٹینڈرڈائزیشن اور افغان نیشنل سٹینڈرڈائزیشن اتھارٹی کے نام پر ہونیوالے تین معاہدوں میں 10.8 ملین ڈالر خرچ کرچکاہے ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے ایک تہائی غریب افراد ہندوستان میں مقیم ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ بھارتی حکام کو اپنے ملک سے غربت کے خاتمے کی بجائے دوسرے ملک میں ترقیاتی منصوبے شروع کروانے کی بھلا ایسی بھی کیا ضرورت آن پڑی؟ صرف یہی نہیں جولائی 2008ء میں کابل سفارتخانے پر ہونیوالے حملے کا الزامISI پر لگا کر بھارتی حکام نے ’’را‘‘ کے دو سو تربیت یافتہ افراد کو افغانستان بھیجا۔ جو باقاعدہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے اورافغانیوں کی تربیت کرتے رہے۔ 2009ء میں انڈین آرمیز روڈ آرگنائزشن نے افغانستان میں تعمیر نو کے نام ایک خطیر رقم افغانستان منگوائی اور اسے پاکستان کیخلاف استعمال کیا گیا۔ پاکستان کو درحقیقت سب سے بڑا خطرہ یہی ہے اسی لئے پاک فوج انڈین آرمی کی ہر نقل و حرکت پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے اور عظم نو کے ذریعے انڈین کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کے مقابلے میں جارحانہ دفاع کی تیاری کر رہی ہے۔ گو اس مقابلے میں طاقت کا توازن بری طرح ہمارے خلاف ہے کیونکہ انڈیا کی دس لاکھ فوج کے مقابلے میں ہماری صرف دو سے اڑھائی لاکھ فوج دستیاب ہے۔ لیکن پھر بھی ہمارے جوانوں کے حوصلے پست نہیں۔ ان کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کے استحکام کو نقصان پہنچانا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے کرم اور ہنگو میں شیعہ سنی فسادات کروائے گئے ہیں۔ تیسرے نمبر پر وہ خطرناک جنگی حکمت عملی ہے جس کی بدولت اسکے اتحادی پاک آرمی پر حملہ آور ہیں۔ اس کو فورتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے۔ اسکے تحت ملکی افواج اور عوام میں مختلف طریقوں سے نفرت کے جذبات پیدا کئے جاتے ہیں۔ مرکزی حکومت کو کمزور بنا کر صوبائیت کو ہوا دی جاتی ہے۔ صوبائی حکومتوں کو آپس میں دست و گریبان کیا جاتاہے۔ لسانی‘ مذہبی اور مسلکی فسادات کروا کر عوام میں مایوسی‘ بدامنی اور ذہنی خلفشار اور انتشار کو پھیلایا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کا میڈیا خرید کر اس کے ذریعے عوام میںخلفشار‘ انارکی اور بے یقینی کی کیفیات ابھاری جاتی ہیں۔فورتھ جنریشن وار کی مدد سے امریکہ نے پہلے یوگوسلاویہ‘ عراق اور لیبیا کا حشر کیا اب یہی جنگی حکمت عملی سربیا اور پاکستان پر آزما رہاہے اور عوام کے عدم اتحاد اور بے عملی کی بدولت کافی حد تک اس میں کامیاب ہو چکا ہے۔ فورتھ جنریشن وار میں بھی امریکہ‘ انڈیا اور اسرائیل اتحادی ہیں۔ باراک اوباما نے خود اپنی زبان سے یہ الفاظ ادا کئے کہ وہ پاکستانی میڈیا میں 50 ملین ڈالر سالانہ خرچ کریںگے۔ آج تک کسی نے یہ سوال نہ اٹھایا کہ کن مقاصد کیلئے یہ رقم ادا کی جائے گی جبکہ انڈیا کا پاکستانی میڈیا پر اثر و رسوخ ہماری نظر سے پوشیدہ نہیں‘ علاوہ ازیں ان خارجی محاذوں پر لڑنے کے علاوہ پاک فوج کو داخلی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ نااہل سول حکومتوں کی وجہ سے داخلی اورخارجی مسائل کاتمام بوجھ پاک آرمی کے کندھوں پر ہے۔ بدقسمتی سے ملک کو ہر سال کئی ناگہانی آفات کا سامنا رہتا ہے۔ زلزلہ آگیا تو فوج کو بلائو‘ سیلاب آگیا تو فوج کو بلائو‘ کسی سیاسی جماعت نے دھرنا دیا تو بھی فوج کو صدا۔ان داخلی و خارجی محاذوں پر ہونے والی خانہ جنگی کے سدباب کیلئے بھی سول حکومتوں سے کوئی امید نہیں‘
ہمیں اتحادی قوتوں کے استعماریت کے خواب کو توڑنا ہوگا۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب تمام قوم صوبائی ، نسلی، لسانی، مسلکی، مذہبی اختلافات کو چھوڑ کر پاک فوج کے ساتھ ملکی دفاع میں حصہ لے۔ ہمیں ہر اس سوچ اور نظریے کو رد کرنا ہوگا جو نظریہ پاکستان یا دفاع پاکستان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔
ہم پاک فوج کو اس کی ہمت پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ ملک کا ہر فرد کسی بھی مشکل گھڑی میں پاک فوج کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ ہم اپنے ملک کی سالمیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے اور ان تخریبی عناصر کے سامنے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024