بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کے اندر ریشہ دوانیوں کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے، اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ انہی مکروہ سازشوں کے ذریعے وطنِ عزیز کو دولخت بھی کیا جاچکا ہے جس کا اعتراف 8 جون 2015ء کو مودی نے اپنے دورہ بنگلہ دیش کے دوران کھلے عام کیا۔ اس کے علاوہ گزشتہ کچھ عرصے میں سابق ہندوستانی وزیر دفاع اور ’’گوا‘‘ کے موجودہ وزیر اعلیٰ’’ منوہر پریارکر ‘‘ بھی کہہ چکے کہ بھارت پاکستان کے متعلق کانٹے سے کانٹا نکالنے والی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ خود مودی نے اگست 2015ء میں ’’لداخ‘‘ میں انتہائی اشتعال انگیزی کا ثبوت دیتے کہا تھا کہ ’’پاکستان روایتی جنگ لڑنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے‘‘۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں BJP کے سینئر رہنما ’’سبرامنیم سوامی‘‘ نے زہر اگلتے کہا کہ ’’بھارت کو کوشش کرنی چاہئے کہ پاکستان کو جنگ اور سازشوں کے ذریعے مزید ٹکڑے کردے۔‘‘ موصوف نے کلبھوشن یادیو سے اس کی ماں اور بیوی کی ملاقات کراتے وقت پاکستان کی جانب سے لی گئی احتیاطی تدابیر کو ’’مہابھارت‘‘ کی دیومالائی کہانی کی کردار ’’دروپدی‘‘ سے جوڑا اور کہا کہ دروپدی کی توہین بھی یوں ہی کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس ضمن میں وہ زبان استعمال کی جو احاطہ تحریر میں نہیں لائی جاسکتی۔ سنجیدہ تجزیہ نگاروں نے کہا ہے کہ اس معاملے کی اصل حقیقت صرف یہ ہے کہ کلبھوشن کی گرفتاری کے فوراً بعد سے ’’را‘‘ نے اس کی اہلیہ کو گرفتار کرلیا تھا اور کئی ماہ تک اسے اپنی تحویل میں رکھ کر اپنی مرضی کے بیانات رٹوائے تھے۔
بہرحال قابل ذکر بات ہے کہ ان تمام سازشوں کے باوجود ہندوستان عالمی برادری کے سامنے خود کو معصوم اور دودھ سے دھلا قرار دیتا نہیں تھکتا اور دنیا کے اکثر ملک بھی نہ صرف دہلی کے ان دعوئوں پر یقین کرتے تھے بلکہ اپنے گناہ چھپانے کی اس بھارتی روش کی تائید اور حمایت بھی جاری رکھے ہوئے تھے مگر بالآخر سچ کو تو سامنے آنا ہی ہوتا ہے تبھی ’’ را ‘‘ کا حاضر سروس افسر ’’ کلبھوشن یادیو ‘‘ قریباً پونے دو سال قبل بلوچستان میں گرفتار ہوا تو موصوف نے دورانِ تفتیش اپنی تمام کارستانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ انڈین نیوی میں کمانڈر کے عہدے پر فائز تھا۔ واضح رہے کہ نیول کمانڈر کا منصب فوج کے لیفٹیننٹ کرنل کے مساوی ہوتا ہے۔ انڈین نیوی میں اس کا سروس نمبر ’’ 41558 ‘‘ تھا اور وہ 16 اپریل 1970ء کو پیدا ہوا ۔ اور 1991ء میں اس نے بھارتی بحریہ میں کمشن حاصل کیا ۔ کچھ عرصے بعد نیول انٹیلی جنس میں چلا گیا۔ اس کی اچھی کارکردگی کی بناء پر اس کو ’’را‘ ‘میں شامل کر لیا گیا اور پاکستان میں ’’ کور ایجنٹ ‘‘ کے طور پر کام کرنے کے لئے منتخب کیا گیا اور اس کا مسلمان نام ’’حسین مبارک پٹیل ‘‘ رکھا گیا۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر اس کو اسلام کی بنیادی تعلیمات دی گئیں تاکہ کسی بھی مرحلے پر اس کی ہندئوانہ اصلیت ظاہر نہ ہوسکے۔
اسی مسلمان نام پر اس کو پاسپورٹ جاری کیا گیا جس کا نمبر ’’ L9630722 ‘‘ تھا اور پھر اس کو بلوچستان سے متصل ایرانی ساحلی شہر ’’ چاہ بہار ‘‘ میں را نے جیولری کی دکان کھول کردی لیکن اس کا اصل کام بلوچستان آ کر اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کراچی، بلوچستان میں علیحدگی پسند اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کی وارداتیں انجام دینا تھا اور کئی برسوں سے وہ یہ سب کچھ کرتا آ رہا تھا وہ بلوچستان میں علیحدگی کی مسلح تحریک کی ہر طرح سے سرپرستی کررہا تھا اور اس ضمن میں کئی دوسرے غداروں کے علاوہ ’’ حاجی بلوچ ‘‘ نامی آدمی اس کا بڑا مہرہ تھا جس کے ذریعے وہ ’’ مالی ‘‘ اور ’’ لاجسٹک‘‘ امداد دہشت گرد تنظیموں کو فراہم کرتا تھا۔ وہ اسی حوالے سے کراچی میں داعش کے قیام کی کوشش بھی کر رہا تھا اور سانحہ صفورا میں بھی پوری طرح ملوث تھا جس میں تقریباً پچاس نہتے پاک شہری شہید ہو گئے تھے۔ یوں اسے محض جاسوس کہنا صحیح نہیں کیونکہ وہ درحقیقت اپنی سرپرستی میں دہشت گردی کا پورا نیٹ ورک چلا رہا تھا۔
اس کے علاوہ سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گردی میں انڈین آرمی کے حاضر سروس کرنل پروہت، ’’پرگیہ ٹھاکر‘‘ اور ’’میجر اپادھیا ‘‘ کا کردار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ انڈین آرمی کی خصوصی دہشت گرد بٹالین ’’ ٹی ایس ڈی‘‘ کے ہیڈ لیفٹیننٹ کرنل ہنی بخشی کا کردار بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ واضح رہے کہ چند روز قبل یعنی 27 دسمبر کوکرنل پروہت، میجر اپادھیا اور سادھوی پرگیہ ٹھاکر پر سے دہشت گردی کے ’’مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ‘‘ (مکوکا ایکٹ) کی دفعات ختم کردی گئی ہیں۔ یوں مودی راج میں ہندو انتہاپسندی پورے بھارت میں عروج پر ہے اور بھارتی اقلیتیں خصوصاً مسلمان سوچ رہے ہیں کہ انسانی حقوق کے عالمی چیمپئن کہاں ہیں؟!!