1980ء کے عشرے کے اوائل کی بات ہے ایس ایچ ہاشمی کے صاحبزادے مسعود ہاشمی بی کام کے طالب علم تھے۔ ایس ایچ ہاشمی نے اپنے صاحبزادے سے کہا کہ آپ اپنے لئے ایک اچھی سی گاڑی خرید لو۔ نوجوان مسعود کی خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ اوائل عمری میں کسی بچے کو بڑی گاڑی والدین کی طرف سے ملنا خوش نصیبی تو ہے ہی بچوں پر ان کے والدین کے اعتماد کا اظہار بھی ہے۔لیکن عجیب اتفاق کہ ابھی مسعود کا نئی گاڑی میں گھومنے پھرنے کا شوق پوری طرح پورا نہیں ہوا تھا کہ ایس ایچ ہاشمی صاحب نے حکم سنا دیا کہ مسعود! یہ گاڑی بیچ دو، سو گاڑی بیچ دی گئی۔
ابھی گاڑی بیچے ہوئے بمشکل ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ ایس ایچ ہاشمی نے اپنے بیٹے مسعود کو بلایا اور کہا کہ اب آپ ایک اور گاڑی خرید لیں جو قیمت میں پہلے والی گاڑی سے بھی زیادہ ہو۔ اس خوشخبری سے ایک طرف مسعود ہاشمی کی خوشی کی انتہا نہ رہی دوسری جانب وہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ ایک ہفتے بعد مہنگی گاڑی خریدنا اور ہفتہ پہلے ایک ایسی گاڑی بیچ دینا جو بعدازاں کم قیمت میں شو روم والوں کو واپس کی گئی سمجھ سے بالاتر ہے۔ سو مسعود ہاشمی نے ہمت کرکے والد سے پوچھ ہی لیا جس پر ایس ایچ ہاشمی نے برجستہ جواب دیا بیٹا! اس وقت میرے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ اگرچہ دفتر میں کم از کم ایک سو گاڑیاں کھڑی تھیں لیکن چونکہ وہ بالخصوص دفتر کے سٹاف اور دفتری امور کے لئے مختص ہیں لہٰذا اپنے ملازمین اور دفتر کی گاڑیوں میں سے کوئی گاڑی بیچنا میرے ضمیر پر بوجھ محسوس ہوتا۔ تم چونکہ میرے بیٹے ہو میرا خون ہو لہٰذا تمہاری گاڑی بیچنے میں کوئی قباحت نہ تھی سو میں نے ایک خاص مفہوم میں ناراضگی کو مول لینا گوارہ کر لیا لیکن دفتر کے امور ڈسٹرب ہونا اور ملازمین کا پریشان ہونا مجھے قطعاً منظور نہ تھا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسعود پیسوں کا لین دین بڑا عجیب طرح کا ہوتا ہے اگر 30 دنوں کی مزدوری کے بعد کارکنوں کو تنخواہیں ادا نہ کی جائیں تو ان کے گھروں کے چولہے نہیں جلتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسعود میں تمہاری ماں کو بھی ہر ماہ کی یکم، دو تاریخ تک پیسے نہ دوں تو اس کی نظریں بھی بدل جاتی ہیں یہ تو پھر ملازم ہیں جن کا پورا پورا حق ہے کہ ان تمام کو اپنی فیملی کی طرح رکھا اور سمجھا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں گزشتہ 30 برس سے تنخواہیں بروقت بلا ادنیٰ تاخیر ادا کرتا چلا آ رہا ہوں۔ ’’ قلم چہرے‘‘ میںنسیم حجازی، مختار مسعود، شفیق الرحمن ، اشفاق احمد، مقبول جہانگیر، ارشاد حقانی، چودھری عنایت اللہ، فیض احمد فیض، جیسی معروف شخصیات کے تذکرے، یادیں اور ہوشربا انکشافات ہیں۔ یہ سب ضیاء شاہد کے منفرد طرز تحریر میں ہو تو یہ بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
آخر میں ایک واقعہ ’’سیاستدانوں کی باتیں‘‘ سے، یہ کتاب بھی قلم فائونڈیشن نے شائع کی ہے۔
ان دنوں جماعت اسلامی کا ایک سالانہ اجتماع راوی روڈ لاہور پر بھاٹی اور ٹیکسالی کے درمیان سڑک کے دائیں جانب اس پارک میں ہوا جو اندرون شہر سے منسلک تھا یہ ایک لمبی پٹی تھی جو بھاٹی سے ٹیکسالی تک پرانے شہر کو سڑک سے جوڑتی تھی۔ ملک امیر محمد خان گورنر تھے اور لاہور کے اس وقت کے معروف بدمعاش اچھا شوکر والا کا بہت خوف اور دبدبہ تھا۔ جماعت اسلامی کا اجلاس الٹانے کے لئے گورنر صاحب کے حکم پر مودودی صاحب کے جلسے میں آنے سے پہلے ہی اچھا شوکر والا کے بھیجے ہوئے بدمعاشوں نے جلسہ گاہ میں بے تحاشا فائرنگ کی اس سے جماعت کا ایک رکن اللہ بخش شہید ہو گیا۔ جلسہ گاہ میں بھگدڑ مچ گئی۔ مودودی صاحب سے بہت کہا گیا کہ آپ جلسہ میں نہ جائیں مگر انہوں نے یہ تجویز قبول نہ کی۔ بجلی اور لائوڈ سپیکر کے تار کٹ چکے تھے ہر طرف خوف کا سماں تھا۔ پولیس کے لوگ خود بدمعاشوں کی سرپرستی کرتے ہوئے انہیں بچا کر ساتھ لے گئے تھے۔ جماعت اسلامی والوں نے جلدی سے ہاتھ میں پکڑنے والے مائیک اور سپیکر ٹو ان ون کا بندوبست کیا جب ہم جلسہ گاہ میں پہنچے تو میں نے سید مودودی کو تقریر کرتے ہوئے دیکھا۔ مزاج کے مطابق وہ ہمیشہ کی طرح پرسکون تھے اور انتہائی اطمینان کے ساتھ خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا ہمارے نہتے ساتھیوں پر جس طرح بدمعاشوں نے فائرنگ کی ہے اور جس طرح سب لوگوں نے دیکھا کہ پولیس حملہ آوروں کی حفاظت کر رہی تھی اس کے پیش نظر ہم کوئی مقدمہ درج نہیں کرائیں گے کیونکہ یہ بات لاہور میں پھیلی ہوئی ہے کہ حملہ گورنر صاحب نے کروایا ہے۔ ہم اللہ کی عدالت میں مقدمہ کروائیں گے اور ہم انصاف کا معاملہ اس ہستی پر چھوڑتے ہیں جو کائنات کو تشکیل دینے والی ہے اس سے بڑا منصف ہمیں اور کوئی نہیں مل سکتا پھر وہ رکے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیہ انداز میں بولے اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے ساتھی بے گناہ ہیں وہ غیر مسلح ہیں اور پاکستان میں اسلام کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کے لہو سے ہاتھ رنگنے والے ظالموں سے اور شدادوں سے تو ہی اس ظلم کا بدلہ لے۔ ہم اپنا انصاف تیرے ہی سپرد کرتے ہیں۔ سید مودودی کی گفتگو میں جذباتیت تھی نہ جواب میں انہوں نے ایک لفظ بھی برا بھلا کہا۔ بس انہوں نے اپنا معاملہ اپنے رب کے حضور پیش کر دیا۔ میرے گرد جو لوگ کھڑے تھے ان میں سے کئی ایک نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ اس دوران کسی نے اچانک کہا یا اللہ رحم کر۔ اگر دعا قبول ہو گئی تو قاتل جہاں کہیں بھی چھپ کر بیٹھا ہو خواہ اس کی پناہ گاہ سرکاری عمارت ہو یا گورنر ہائوس وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا۔
وقت گزرتا گیا۔ وہ ایس پی سکندر حیات جو جماعت اسلامی کے جلسے پر حملہ کروانے کی نگرانی کر رہا تھا اسے ایک موذی مرض لاحق ہو گیا۔ اس کی زبان پر کیڑے پڑ گئے تھے کوئی اسے ملنے جاتا وہ ہاتھ جوڑ کر کہتا میرے لئے دعا کرو میرا ایک ایک پل گزارنا مشکل ہو رہا ہے۔ دعا کرو مجھے اللہ پاک صحت دے دے یا پھر اپنے پاس واپس بلا لے۔ اچھے کا السر پھٹا وہ دو ہفتے ہسپتال میں اذیت کے بعد چل بسا۔ اس واقعہ کے ماسٹر مائنڈ امیر محمد خان نواب آف کالاباغ کا انجام ان دونوں سے برا ہوا۔ اپنے ہی گھر میں اپنے ہی بستر پر وہ سو رہے تھے کہ ان کا بیٹا کمرے میں داخل ہوا ان پر مسلسل گولیاں برسائیں۔ یوں ملک امیر محمد خان راہی ملک عدم ہوا ’’اور آنکھوں والو! عبرت پکڑو‘‘ ( فرمان الٰہی)
گزشتہ روز کی قسط کے حوالے سے ایک وضاحت کی ضرورت ہے، ضیاء شاہد جنرل ضیاء الحق نہیں، وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ چین گئے تھے واپسی پر اکبر بھٹی خفا ہوئے۔(ختم)