قارئین کرام کس قدر دکھ اور افسوس کا مقام ہے جب سے پاکستان بنا ہے اسکے غریب عوام مسلسل بحرانوں‘ آزمائشوں سزا¶ں اور حکمرانوں کی زد میں رہے ہیں ہر لمحہ کوئی نہ کوئی بحران در بحران انکے گلے کا ہار رہا ہے حکومتیں آتی رہیں‘ جاتی رہیں‘ سنہرے وعدے ہوتے رہے لیکن لمحہ موجود تک خوشحالی‘ روزگار‘ صحت و تعلیم کی سہولت‘ معاشی سکون‘ انصاف کی تحصیل سب کچھ ان کیلئے قصہ پارینہ رہا اور لگتا ہے آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا کیونکہ موجودہ صورتحال میں بھی فی الحال ملک کی بڑی تمام سیاسی پارٹیوں کی سوئی اپنے اپنے مفادات اور انتخابی کامیابیوں پر اٹکی ہوئی ہے وہ غریب عوام کی کسی بھی قسم کی بھلائی کے کسی بھی ایک موقف پر یکجا و یکسو نہیں ہو پا رہیں نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلسل جان لیوا مہنگائی‘ پانی‘ بجلی کے بحران اور انصاف تک نارسائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں اور یہ سب کچھ اتنا بہت کچھ ہے کہ بیس کروڑ عوام اب ایک لمحہ کیلئے بھی مزید اسے برداشت نہیں کر سکتے وہ ہمیشہ سے آمریت نما جمہوریت اور غربت و مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں میں پستے رہے بلکہ ابھی تک پس رہے ہیں ان کا پلھیتن نکالا جا رہا ہے۔ خدا جانے حکمرانوں کو اس بات کی سمجھ کیوں نہیں آتی کہ خدارا سب سے پہلے ایک بار وہ مہنگائی تو ختم کر دیں باقی مسائل ساتھ ساتھ حل ہوتے رہیں گے آخر عوام دو سو روپے کلو سبزی‘ ڈیڑھ سو روپے کلو ٹماٹر آٹھ سو روپے کلو بکرے کا گوشت‘ چار سو روپے کلو مرغی کا گوشت اور ایک سو روپے لٹر دودھ نما پانی کیسے خرید سکتے ہیں؟ وہ غربت سے فاقوں اور فاقوں سے موت تک آگئے ہیں بلکہ اسی غربت اور فاقہ کشی کی وجہ سے تمام تر معاشرتی خرابیاں نقطہ عروج کو چھو رہی ہیں غریبوں کیلئے چوریاں‘ ڈاکے بلکہ ہر قسم کے جرائم آکسیجن کی طرح ناگزیر ہو گئے ہیں خو کشیاں‘ خود سوزیاں اور ٹرین کے نیچے آکر مرنے کی خبریں ہر روز ہر اخبار کی شہ سرخی ہوتی ہیں‘ غلیظ پانی اور ناقص آٹے کی وجہ سے غیر معمولی ناموں کی بیماریاں پھیل رہی ہیں‘ لوگ دھڑا دھڑ ہسپتال داخل ہو رہے ہیں جبکہ علاج اس قدر مہنگا ہے کہ اسکے مقابلے میں موت زیادہ سستی لگتی ہے ایسی جان لیوا صورتحال میں بے چارے عوام حکومتوں کے بڑے بڑے ہندسوں کے حساب کتاب‘ ڈالرز‘ پا¶نڈز اور یورو‘ ین کو کیا جانیں نہ ہی وہ اربوں قرضوں کے بارے میں جانتے ہیں کہ کس نے لیا‘ کس نے کھایا اور کس سے کتنا لیا وہ تو بس ہاتھ سے منہ تک جینا چاہتے ہیں ہر آنے والی حکومت ملک و قوم کی قسمت کا چارج سنبھالتے ہی تمام تر مہنگائی کو پچھلی حکومت کے کھاتے میں ڈال کر بلکہ اسے اپنے لئے وصول شدہ ذاتی ورثہ قرار دے کر مزید مہنگائی کر لیتی ہے اب بھی حکومت کے پاس اتنا وقت ضرور باقی بچ گیا ہے کہ وہ عوام کے مسائل کی طرف توجہ دے کر انہیں کم از کم اتنا ضرور زندہ رہنے دے کہ وہ کپکپاتے لرزتے کمزور ہاتھوں سے ووٹوں کی پرچیاں پکڑ کر دوبارہ آپ کو شاہ‘ بادشاہ‘ وزیراعظم اور وزیر منتخب کر سکیں یقین کیجئے فاقوں اور مارے کمزوری کے اب تو وہ پرچی کا بوجھ اٹھانے تک کے بھی قابل نہیں رہے ائرکنڈیشنرز کی یخ ہوا¶ں میں بیٹھ کر مرغ و متنجن اڑانے والے کیا جانیں کہ سورج کی سرخ دھوپ میں فاقہ زدہ کمزور نحیف پیلے مزدور کس طرح مزدوریاں کر رہے ہیں اور دو وقت کھانے کیلئے آٹا بھی نہیں کما پا رہے‘ پٹرول مہنگا ہونے سے بسوں ویگنوں کے کرائے کتنے بڑھ گئے ہیں‘ بجلی نہ ہونے سے کتنے طالب علم فیل ہو رہے ہیں‘ بے روزگاری کی وجہ سے کتنے جوان خود کشی‘ بم دھماکے کرنے اور جرم بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں.... خدارا اب تو ملک کے سارے بڑے سر جوڑ کر بیٹھیں اور عوام کے بنیادی مسائل‘ غربت‘ مہنگائی‘ فاقہ کشی‘ بے روزگاری اور جہالت کا توڑ سوچیں ورنہ تو وہ یہ بات یاد رکھیں کہ ایک حساب اوپر بھی جاری ہے جس کی زد میں اگر وہ آگئے تو انہیں کوئی بھی بچانے والا نہ ہو گا کیونکہ رب العالمین کا حساب بہت کڑا ہوتا ہے‘ بہت کڑا اور حتمی ہوتا ہے اللہ پاکستان اور پاکستانیوں کا حامی و ناصر ہو۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024