آج پھر چار اپریل آگیا اور پاکستان کے لوگوں کو1979ءمیں اس روز خبر ملی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو صبح سویرے پھانسی دے دی گئی۔ مقبول لیڈروں کواتنی جلدی کیوں مار دیا جاتا ہے؟ بے نظیر بھٹو کا کیا قصور تھا اسکو بھی تو بہت جلد مار دیا گیا۔ مارنے والے چاہے کوئی بھی ہوں لیکن اس طرح کے لوگوں کو مار کر ایک دشمن کو نہیں مارا جاتا بلکہ ملک کو مارا جاتا ہے۔ اس ملک کے لوگوں کوان سے محروم کیا جاتا ہے۔ انکی سوچ کا قتل کیا جاتا ہے اور پھر سب سے بڑھ کر ملک کو ترقی سے روکا جاتا ہے۔ Visionaryلیڈرز روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی پھندا قبول کر لیا لیکن آمریت سے خفیہ یا اعلانیہ سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ آج پیپلز پارٹی کے وارث ایک صوبے کی حکومت قائم رکھنے کیلئے اور اپنے لوٹ مار والے دوستوں کو بچانے کیلئے کیا کچھ نہیں کر ہے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی عوامی راج اور جمہوریت کا symbol تھے۔ پانچ جنوری 1928ءکو پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کو صرف اور صرف 51 سال چلنے دیا گیا قدرتی موت تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے لیکن قتل تو اللہ کا حکم نہیں بلکہ ظلم ہے۔ Capricorn سن سائن رکھنے والے عظیم لیڈر نے آکسفورڈ اور کیلی فورنیا سے بہترین تعلیم حاصل کی۔ جنرل ایوب خان کی حکومت میں شامل ہوئے اور ملکی مفاد کے خلاف بھارت سے معاہدہ کے خلاف حکومت چھوڑی اور عوام میں آگئے۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور لوگوں کو آواز دےدی۔ ایک احساس پیدا کیاکہ انکا کوئی والی وارث ہے۔ ایک ایسی تحریک چلائی کہ آمریت کو جانا پڑا۔ جنرل یحیٰ خان کی غلطیوں اور بین الاقوامی سازشوں کی وجہ سے ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تو ذوالفقار علی بھٹو کو منتخب لیڈرکی حیثیت سے اقتدار مل گیا۔ 1973ءکے متعلقہ آئین سے لیکر بے شمار اصلاحات سمیت پاکستان کے نیوکلیئر کی بنیاد رکھی۔
آج جس طرح پاکستان بیرونی جارحیت کے خطرے سے دوچارہے بھارتی لیڈرکھلے عام پاکستان کو(حاکم بدھن) چار ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور مکمل ختم کرنے کے اعلانات کررہے ہیںیہ ایٹم بم ہی ہماری حفاظت کر رہا ہے۔ بھارتی لیڈروں کو پاکستان سے دشمنی کی انتہایہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے 10کروڑ لوگ بھی مارے جائیں تب بھی فکرکی کوئی بات نہیں پاکستان توختم ہوگا! کتنے مضحکہ خیز بیانات ہیں۔ ایک نام نہاد جمہوری ملک کے لیڈر کیا بیانات دے رہے ہیں۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی دور اندیشی تھی کہ انہوں نے اپنی جان تو قربان کر دی لیکن ملک کے دفاع کو محفوظ کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ 10 کروڑ لوگوں کو مروا کر بھی پاکستان کو ختم کرنا آسان نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ یہی تو وہ خوبیاں ہیں جسکی بنیاد پر آج بھی لوگ بھٹو کو یاد رکھتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو صحیح معنوں میں پاکستانی تھے۔ دور اندیش لیڈر ہونے کی وجہ سے 1963ءمیں وزیرخارجہ بننے کے بعد چائنہ کے تعلقات کی بنیاد رکھی۔جب بہت سارے ملکوں نے تائیوان کی حکومت کو تسلیم کر لیا تب بھی بھٹونے چائنہ کوہی ایک ملک کے طور پر تسلیم کیا۔ چائنہ سے تعلقات بڑھانے کی وجہ سے امریکہ کے صدر جانسن نے صدر ایوب کو خط لکھا اور مطالبہ کیاکہ ذوالفقار علی بھٹو کو برطرف کیا جائے اور چائنہ کی بجائے فری ورلڈ سے تعلقات رکھے جائیں۔ بھٹو نے اقوام متحدہ اور سکیورٹی کونسل میں چائنہ کی بھرپور حمائیت کی۔ آج ہر چھوٹا بڑا لیڈر چائنہ سے تعلقات کو اپنی کوشش قرار دیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے یہ سہرا صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔ بلاشبہ ہرآنے والی حکومت نے پاک چائنہ تعلقات کوآگے بڑھایا ہے سی پیک منصوبہ بھی چائنہ سے 55سالہ گہرے روابط اور دوستی کی بدولت ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان کو چائنہ کی غلامی میں نہیں دینا چاہئے۔ یہ تاثر بری طرح پھیل رہا ہے کہ جسطرح ہندوستان میں انگریز تجارت کی غرض سے آیا اور پورے انڈیا پر قابض ہو گیا۔ کیا چائنہ بھی سی پیک کی شکل میں پاکستان کے اندر داخل ہو کر پاکستان کو اپنی کالونی تو نہیں بنائے گامیں بڑے افسوس کے ساتھ ہمیشہ کہتا ہوں کہ ملک میں بڑی سوچ والے لیڈرنہیں رہے۔ بھٹوکے بعدبے نظیر ضرور پیدا ہوئی لیکن اس کے بعد۔۔۔۔ نوابزادہ نصراللہ خان نہ رہے، ولی خان اور مفتی محمود بھی چلے گئے۔ مولانا مودودی اور شاہ احمد نورانی کو کون بھول سکتاہے۔کتنی بدقسمتی ہے کہ کوئی ان جیسا تو کیا ان سے نیچے درجے کا بھی نہیں ملتا۔ اس لئے توآج ہمیں ذوالفقار علی بھٹو بہت یاد آرہے ہیں
ذوالفقار علی بھٹو نے اندرا گاندھی کے ساتھ مذاکرات کئے اور شملہ معاہدہ کے ذریعے 93 ہزار قیدی واپس لائے۔ سینکڑوں ایکڑ رقبہ بھارت سے چھڑایا۔ 12 اپریل 1973ءکو پاکستان کے متفقہ آئین پر دستخط کئے اور 10 اگست کو صدر کا چارج فضل الٰہی چوہدری کے سپرد کر دیا اور 14 اگست 1973ءکو 146 ارکان میں سے 108 ووٹ لیکر وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ بھٹو کے دور حکومت میں 1973ءکے آئین میں سات بڑی ترامیم کی گئیں۔ نچلے درجے کو طاقتور بنانے کیلئے بڑی صلاحیتوں کو قومی تحویل میں لینے کی پالیسی بنائی گئی۔ تمام ملکوں کو بھی قومی تحویل میں لیا گیا بھٹو حکومت کے دور میں شہروں اور دیہاتوں میں 6500 ایلمنٹری، 900 مڈل سکول، 407 ہائی سکول، 51 انٹرمیڈیٹ کالجز اور 21 جونیئر کالجز بنائے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کارناموں میں قائداعظم یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی بنانا بھی شامل ہے جبکہ علامہ اقبال میڈیکل کالج بھی 1975ءمیں بنایا گیا۔ 1976ءمیں انجنیئرنگ کونسل، Institute of Theoretical of Physics پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز، کیڈٹ کالج نارتھ وزیرستان، ملتان ،بہاولپور اور خیرپور میں یونیورسٹیاں بنائی گئیں۔ بھٹو کے دور میں تاریخی لینڈ اصلاحات ہوئیں جس سے جاگیرداری پر کاری ضرب لگی۔ پورٹ قاسم، پاکستان سٹیل ملز، HMC اور بے شمار سیمنٹ فیکٹریاں لگائی گئیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کو روکا اور پاکستان میں بلوچیوں کو عراقی سپورٹ کے ساتھ قبضہ کرنے کی کوشش کو بری طرح شکست دی۔ اسلامی دنیا کو اکٹھا کیا اور عربوں کو تیل کی اہمیت کا احساس دلایا۔ پاکستان کے اندر تو کیا دنیا کی بڑی طاقتوں کو بھی بھٹو کانٹے کی طرح چبھنے لگا جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ 5 جولائی 1977ءکو جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاءلگا دیا حالانکہ پاکستان قومی اتحاد اور پاکستان پیپلزپارٹی میں معاہدہ ہو گیا تھا اور مارشل لاءکا کوئی جواز نہیں تھا۔ مقصد ایک ایسے لیڈر کو ہٹانا تھا جو ملک کو آگے کی طرف لے جا رہا تھا اور جسکی نظر بہت دور تک جاتی تھی۔ بھٹو کو افغانستان میں ہونے والی جنگ کا بھی علم تھا اور روس کی یلغار بھی بھٹو کو امریکہ کے خفیہ منصوبوں کا بھی علم تھا جس کا مقصد روس کو آگے بڑھنے سے روکنا تھا یہ کام پاکستان میں جنرل ضیاءالحق ہی کر سکتا تھا اور تاریخ نے دیکھاکہ امریکہ کی مرضی سے پاکستان نے کس طرح افغانستان کی جنگ لڑی اور پھر تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ جب جنرل ضیاءنے افغانستان کی پالیسی تبدیل کی تو پھر جہاز کریش ہو گیا۔ بھٹو کا خواب پاکستان کو آگے کی طرف لے جانا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے شہید بابا کے مشن کو جاری رکھا لیکن ملک دشمنوں نے انکو بھی شہید کر دیا۔ آج بھٹو کے مشن کو پورا کرنے والا کوئی بھی نہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی بھٹو کے بعد لاوارث ہوئی تو دختر مشرق نے اسکو سنبھالا لیکن بے نظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری۔۔۔ سے کیا توقع کی جا سکتی ہے جس نے پانچ سال تو حکومت کی لیکن لوگوں کیلئے کچھ نہیں کیا۔ دوستوں کو تو خوش رکھا لیکن کارکن محروم رہے۔ وزیراعظم اور وفاقی وزیر امیر اور طاقتور ہو گئے لیکن ملک کمزور ہو گیا۔ رشوت کھلے عام لی گئی اور رشوت لینے والے محترم ٹھہرے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پارٹی پنجاب، بلوچستان، GB, KPK اور کشمیر میں عوام سپورٹ سے محروم ہو گئی۔ پاکستان کو بھٹو ویژن کی ضرورت ہے۔ جہاں نواز شریف اور عمران خان جو بھی ”بھٹو ویژن“ کو آگے لے کر جائیگا وہ ملک کا محسن ہو گا آج قوم کو ضرورت ہے ایسے مسیحا کی جواپنی ذات، رشتہ داروں اور دوستوں سے نکل کر دیکھ سکے اس لئے آج تو ہم ”بھٹو“ کو تلاش کر رہے ہیں۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات
Apr 22, 2024