ویسے تو پاکستان کو مسائلستان کہا جا رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی نہ کوئی نئی افتاد نہ آن پڑتی ہو۔ پر کچھ لوگوں کی سرگرانی اور ہے۔ قوم کی کشتی نہ صرف بیچ منجھدار میں ہے بلکہ بری طرح ہچکولے کھا رہی ہے۔ غالباً اس سے زیادہ مشکل وقت ہماری قومی زندگی میں کبھی نہیں آیا۔ اسلام آباد میں عمران خان کے حامیوں اور مولانا طاہر قادری کے مریدین نے ریڈ زون میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور صبح و شام بیک آواز ایک ہی نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ "GO NAWAZ GO"۔ ملک کا منتخب وزیراعظم سوچتا ہو گا کہ وہ کون سی ساعت بد تھی جب اس نے وزیراعظم ہائوس میں قدم رکھا تھا۔
جمہوریت مغربی ’’کانسپٹ‘‘ ہے جس کی تعریف امریکی صدر ابراہیم لنکن نے ان الفاظ میں کی تھی۔ ایک ایسا نظام حکومت جو عوام کا ہے۔ اور ان کی فلاح وبہبود کے لئے ہے۔ یہ ایک ایسا سیاسی کھیل ہے جس کے چند واضح اصول ہیں۔ ایمانداری، راست گوئی، قوت برداشت، مخالف فریق کی بات سننے کا حوصلہ… بدقسمتی سے ہم نے یہ اصول تو نہیں اپنائے۔ ہندوستان اور پاکستان اکٹھے آزاد ہوئے جواہر لعل نہرو ہندوستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ اس خاندان نے اپنا سب کچھ ملک و قوم کی خاطر تج دیا۔ اس کے بعد لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، مرارجی ڈیسائی، واجپائی، من موہن سنگھ، مودی وغیرہ نے عنان حکومت سنبھالا۔ کسی نے بھی فیکٹریاں اور کارخانے نہیں لگائے۔ لندن اور پیرس میں محلات کھڑے نہیں کئے۔ شاہانہ طرز زندگی نہیں اپنایا۔ ارمانی کے سوٹ نہیں سلوائے۔ اپنے دستر خوان کو ’’بھوجن‘‘ تک محدود رکھا۔ موروتی (سوزوکی) کار میں سفر کیا۔ جہاں تک ہو سکا بیرون ملک دوروں کے لئے کمرشل فلائٹ میں سفر کیا۔ کھدر کا لباس پہنا۔ علاج کے لئے ملکی ہسپتالوں اور مقامی ڈاکٹروں پر انحصار کیا۔ کسی نے بھی مخالفین کی آواز دبانے کے لئے ریاستی قوت اور جبر کا استعمال نہ کیا لفافہ کلچر کو فروغ نہ دیا۔ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے غنڈوں اور قاتلوں کی فوج کھڑی نہ کی۔ سرکاری سیکرٹ فنڈز کا ناجائز استعمال نہ کیا۔ اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ لیکن ایک چوکس میڈیا اور بیدار مغز عوام نے ان کی حرکات و سکنات اور رہن سہن پر کڑی نظر رکھی۔
بانی پاکستان کی رحلت کے بعد ہر چہ بارا بار کا سماں پیدا ہو گیا کچھ یوں گمان ہوتا تھا کہ یہ ملک آزاد نہیں ہوا بلکہ پنیر کا ایک ٹکڑا آسمان سے گرا ہے جس پر چیلیں، کوئے اور گدھ چمٹ رہے ہیں۔ ایوان اقتدار میں ’’میوزیکل چیئرز‘‘ کا کھیل شروع ہو گیا۔ لیاقت علی خان کو ایک ایسے شخص سے گولی مروائی گئی جو غالباً ان کا نام تک نہیں جانتا تھا پھر ایک بیمار شخص کو گورنر جنرل بنایا گیا جس کے منہ سے رالیں پہاڑی جھرنے کی طرح پھوٹتی تھیں۔ دشنام طرازی میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ چند دن کا مہمان ہے۔ سازشیوں نے اس کی کنپٹی پر پستول رکھ کر استعفے لیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ آخری وقت تک مزاحمت کرتا رہا۔ سکندر مرزا کو جرنیلوں نے لاتوں اور گھونسوں کے ساتھ لندن رخصت کیا۔ ایوب خان کو اپنی ’’پاپولیرٹی‘‘ کا کبھی پتہ نہ چلتا اگر اس کم کم سن پوتا ’’ایوب کتا ہائے ہائے‘‘ نہ کہتا۔ کتوں کی صف میں تو اصحاب کیف کے سگ بھی شامل ہیں لیکن یحییٰ خان کا شمار ان جانوروں میں کیا جا سکتا ہے جس کے برملا لکھنے کی تہذیب اجازت نہیں دیتی۔ طوائفوں کی گود میں بیٹھے ہوئے اس مدہوش شخص نے ملک کو دولخت کر دیا۔ ذوالفقار بھٹو ایک زیرک شخص اور شاطر سیاست دان تھا برکلے اوز آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ جس نے سیاست کو ایک نئی نہج بخشی اور غریب آدمی کو زبان دی۔ باایں ہمہ بدقسمتی سے سندھی وڈیرہ اس کے خون سے نہ نکل سکا۔ نتیجتاً اس انجام سے دوچار ہوا جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ لیاقت علی خان سے لے کر بھٹو تک بے شمار سازشیں اور ناجوازیاں ہیں لیکن بڑے پیمانے پر فنانشل کرپشن نہ ہوئی۔ اس کے بعد جو دور آیا اس میں کرپشن کو سائنس بنا دیا گیا اور ہر سرکاری پرت کو کرنسی نوٹ سمجھا گیا۔ اس کو سمجھنے کے لئے جناب زرداری صاحب کا ایک مشورہ کافی ہے جو مبینہ طور پر انہوں نے اپنی نصف بہتر کو دیا۔ ’’نواز شریف کا مقابلہ کرنے کے لئے نواز شریف جتنی دولت کمانی ضروری ہے‘‘ اس کے بعد ایک ایسی دوڑ شروع ہو گئی جو حرص وہوس، دھونس دھاندلی، مکروفریب اور ریاکاری سے عبارت ہے۔ یہ لوگ حدود وطن سے نکل کر دنیا کے دولت مندوں میں اپنا شمار کروانا چاہتے ہیں۔ جب لوگ اغراض کرتے ہیں تو کہتے ہیں عدالتوں میں جائو۔ بالفرض کبھی کبھی عدالتیں ’’راہ راست‘‘ پر نہ آئیں تو پھر ’’اینٹ کھڑکا‘‘ ہو جاتا ہے۔ حکمرانوں نے بیس کروڑ عوام کو مویشیوں کا ریوز سمجھا ہے اور انہیں ہمیشہ مکروفریب اور منافقت کی لاٹھی سے ہانکا ہے۔ فرامین اور شواہد سے لگتا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے حقیقی آزادی اور خوشحالی کا سورج شاید ہی طلوع ہو سکے۔!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38