بازاروں میں رسم مہندی کی بدعات ،جو بھارتی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں شہر کے گلی کوچوں اور بازاروں سے ہوتی ہوئی ملک کے کھیتوں کھلیانوں ،مکانوں اور دکانوں ،خیبر پختونخواہ کے پہاڑوں سندھ کے ریگستانوں ، بلوچستان کے بیابانوں اور پنجاب کے مفلس و ناداروں کے مکانوں میں شریفوں کے مجرے کے نام سے مہندی کے نام پہ رقص ابلیس کو فلمانے والے فوٹو گرافروں نے فلمیں اور کیسٹس بنا ڈالیں اور اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی پہنچا کر اپنی تجوریاں بھر لیں جیسے پچھلے سے پچھلے دور میں ننگی فلمیں بنا کر۔پہلی دفعہ روشن خیال پاکستان کا چہرہ دنیا کو دکھانے کا شرف ایک شریف زادے حکمران نے کیا تھا، اور آٹھ ارب ڈالر سے زر مبادلہ کے جام کو جام صادق کیطرح لبالب بھر کر جھلکا دیا، اور سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر ’’سانوں نہر والے پل پہ بلا کے‘‘کا گانا چلوا کر محکموں کو سر براہوں کیساتھ سر اور جام جمشید رکھ کر ایسے ٹھمکے لگائے اور ایسی کمر کی لچک دکھائی کہ کترینہ اور کرینہ جیسی منیاں مفت میں بد نام ہوئیں، سید زادے کے سر سے نہ جام کھسکا نہ جھلکا چارٹر د طیارے طوائفوں، اورطائفوں کی شکل میں دوبئی جانے لگے اور وینا ملک اور عائمہ ملک کی نقل کچی آبادیوں کے کچے ذہن والی اسی فیصد بچیوں نے کرنی شروع کر دی تھی، یقین نہ آئے تو روشن پاکستان کے بعد سر شام نیا پاکستان ہر چینل پر دیکھ لیں، جن چینلز کو پیسے مل چکے ہیں، وہ تو اس رقص کے علاوہ کچھ اور دکھانا ہی پسند نہیں کرتے، اگر مذاکرہ بھی ہو رہا ہو پھر بھی ایک کونے میں ناچ گانا، بغیر سینسر کے دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔
نجانے اس رومان پرور امڈ امڈ کر آئی گھنگھور گھٹا اور سر مئی بادلوں اور پلاسٹک کی چادروں میں روزانہ BOTOXاور(FACIAL)کر آئی ہوئی دوشیزائوں اور سنہرے بالوں والی آنٹیاں ،مہک مہک اور لہک لہک کر جو ہیجان انگیز جذبات کو خوش اور اْبال دینے والے ہاتھوں کو ہلا کر اور جسموں کو تھمکا کے ساٹھ سے اوپر والے سٹھیائے ہوئے عمران خان کو بھی ہاتھوں کو لہرانے اور جسم کو ہلانے پر مجبور کر دیتے ہیں، اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ بقول رانا ثناء اللہ تیلی پہلوان تو ایسے ناچتے ہیں کہ (مردوں کا مجرہ)دیکھنے پہ بھی تماش بین اور مظاہرین مجبور ہو جاتے ہیں، سناہے روز روز کی سنائی جانیوالی داستان الف لیٰلوی کے دوران اخلاق با ختہ مناظر کی عکس بندی بھی یار لوگوں نے کرنی شروع کر دی ہے۔ طاہر القادری نے پندرہ دن ان نظاروں کو آپریشن والی آنکھ سے تنقیدی جائزہ لیکر بقول قادری صاحب قد سے بڑے لیکن عمر میں چھوٹے بھائی عمران کو مشورہ دیا کہ دھرنے میں بھنگڑا بازی رنگ میں بھنگ ڈال رہی ہے۔ لہٰذا ان مناظر کو بند کردو کیونکہ شاید اس سے ان کے اپنے (خربوزے)بھی رنگ پکڑ رہے تھے۔
جیسا کہ میں پہلے عرص کر چکا ہوں ہمیں قادری صاحب! اور عمران خان کے سوائے ایک مطالبے کے ساروں سے اتفاق ہے، مگر انکے طریق کار سے اختلاف ہے، شاید جاوید ہاشمی جو قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھے ہیں اپنے ہم عمروں اور اپنے ہم عصروں کو جن میں نیازی صاحب بھی شامل ہیں اور قادری صاحب سمیت دیگر سٹیج سجانے والوں کو ہمیشہ رہنی والی آخرت یاد دلاتے ہیں ۔ہاشمی اور عمران خان نے موت کو بہت قریب سے دیکھا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ عمران خان نے انتخابات کے دوران الٹ بازی لگا کر الٹے ہو کر دیکھا ہے۔ اسلئے انہیں اپنی اور اپنے کارکنوں کی زندگی کی پرواہ نہیں، ہمارا گلہ محض اتنا ہے کہ اگر دھرنے بازوں کو اس ملک اور اسکی فوج سے پیار تھے تو انہیں دھرنے کیلئے ان دنوں کا انتخاب قطعی طور پر نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ان کے پیار کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ان کی حکومت نے آئی ،ڈی ،پیز کو فوراً سکول خالی کر دینے کو کہا ہے، شاید دوسرا حکم خٹک یہ دیں کہ تمام آئی ڈی پیز خاندان سمیت دھرنے میں شریک ہو جائیں، جہاں نان نفقہ اور روزانہ کی بنیاد پر وظیفہ بھی ملے گا، آپکی وجہ سے تو فوج کو اپنی تقریب آخر میں ہیں ایس ایس پی ڈاکٹر جونیجو کیلئے دعا گو ہوں، جنہوں نے فرائض سنبھالتے ہوئے، طاہر القادری اور عمران خان کی صدق دل سے تعریف کی تھی، اورحبیب خدا ؐ کی مثال دیکر کہا تھا کہ خدا ئی ریڈ زون تو جبرائیل نے بھی کراس نہیں کیا تھا، اور گزارش کی تھی کہ حدود و قیود کا خیال کریں، میں آپکا خیال کرونگا مگر قادری اور عمران نے انکا سر پھاڑ دیا، قدرت نے جونیجو کو موقعہ دیا تو وہ بھی حسن ظن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کچھ سر ضرور پھاڑے گا۔حکومت سے زیادہ ہجرت کا روں کی خدمت کرنیوالے ڈاکٹر آصف جاہ کیلئے دعا گو ہوں کہ جو کسی عہدے کسی لالچ کسی منصب کی خواہش کے بغیر چپکے سے انسانیت کی خدمت میں رات دن کی پرواہ کئے بغیر پوری لگن سے مگن ہیں عمران بھی اپنے تعلیمی اور طبی اداروں اور صوبائی حکومت کو فلاحی بنانے میں وقت صرف کریں، خدا یہ بھروسہ کریں، وزارت عظمیٰ خود بخود جھولی میں آ کریگی ، یہی حفیظ اللہ نیازی انعام اللہ نیازی ،ڈاکٹر اجمل نیازی نیازی برادری کے علاوہ جاوید ہاشمی اور ہم جیسے دوسرے انکے خیر خواہ ،اور مخلص قلمکار کے علاوہ حضورؐ فرماتے ہیں کہ فتنے کے بارے میں آگہی رکھنا ، لکھنے والے کی قلم کی سیاسی شہید ہونیوالے کے خون سے زیادہ اللہ کو پسند تھے، فتنے کے بارے میں الطاف حسین کے بڑے بھائی قادری صاحب سے پوچھیں، یا خود استخارہ کر لیں کہ خدا سے پوچھ لیں کہ جو کارکن فوت ہوئے ہیں انکا خون حکومت کے علاوہ کس کی گردن پر ہے؟؟
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024