1971ء کی جنگ سے پہلے ہی بھارت نے پاکستان کیخلاف سرد جنگ شروع کر رکھی تھی اور یہی وجہ ہے کہ انڈین ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع بھی ضائع نہیں کیا جاتا تھا۔ آکاش وانی بھارتی ریڈیو سروس تھی جو اپنی پاکستان دشمنی کی وجہ سے پہچانی جاتی تھی۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں بھارتی تربیت اور حمایت یافتہ تنظیم مکتی باہنی کو آکاش وانی ریڈیو کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔ مکتی باہنی کے غنڈے پاک فوج کی وردیاں پہن کر ملک کے طول و عرض میں خواتین کی عزتیں پامال کرتے، بے قصور راہ گزروں کو، راہ چلتے مسافروں کو اور سفر کرتے لوگوں کو ٹرینوں سے اتار کر بے دردی سے مارا جا رہا تھا مگر آکاش وانی اسے پاک فوج سے منسوب کرکے عالمی رائے عامہ کو پاک فوج سے متنفر کر رہی تھی۔ اور انہی وجوہات کی بناء پر ہمارا دایاں بازو ہم سے کاٹ دیا گیا۔ دشمن کی سازشیں کامیاب ہوئیں اور ایک دفعہ پھر حالات تقریباً اسی نہج پر پہنچ گئے ہیں۔
قارئین یہ حقیقت ہے کہ تاریخ میں بڑے بڑے معرکے ہمیشہ بہتر پراپیگنڈے سے جیتے گئے۔ جنگ عظیم اول میں نازی ہٹلر کے ایک سینئر وزیر جوزف گوئیبل سے یہ منسوب فقرہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ’’جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے‘‘ اسی طرح جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے وزیراعظم سرونسٹن چرچل نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اہل وطن ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہماری بہادر افواج بڑی دلیری سے جانوں کے نذرانے دیکر پسپائی اختیار کر رہی ہیںیعنی برطانیہ کی شکست نظر آ رہی تھی مگر چرچل قوم کا مورال پراپیگنڈہ سے بلند کرنے میں مصروف تھا۔ اسی طرح امریکہ کی ویت نام میں شکست کو فری میڈیا کی وجہ قرار دیا جاتا ہے اور امریکہ نے اس سے سبق حاصل کیا اور جب صدام حسین نے کویت پر فوج کشی کی تو سعود ی عرب اور عربوں کی ڈیمانڈ پر امریکہ نے صدام حسین کی ٹھکائی شروع کی مگر میڈیا کو اس جنگ سے دور رکھا۔ جنگ سے متعلق معلومات کا واحد ذریعہ امریکی پینٹاگون کی جاری کردہ پریس ریلیز یا ویڈیو تھیں۔ اسی دوران نائن الیون کا سانحہ ہو گیا تو امریکہ نے اپنے اہداف حاصل کرنے کیلئے میڈیا کوریج پر پابندی عائد کر دی اور بعدازاں عراق کو کھنڈر بنانے کے عمل میں اور افغانستان میں ’’تورا بورا‘‘ کی بمباری تک میڈیا کو ہوا بھی نہ لگنے دی گئی۔عالمی حقوق کی اور آزاد میڈیا کی رٹ لگانے والا میڈیا خاموش رہا۔ ڈرون حملوں میں گناہگاروں کے ساتھ بے گناہ بھی مارے گئے مگر جمہوریت کے چیمپئن عالمی مغربی میڈیا کو سانپ سونگھ گیا۔ جبکہ پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ہزاروں رجسٹرڈ اور نیم رجسٹرڈ این جی اوز موجود ہیں، جن کی مالکان خواتین جو خود بڑے گھرانوں کی بہو، بیٹیاں ہیں وہ اپنے غیر ملکی آقائوں کو خوش کرنے کیلئے یا غیر ملکی گرین کارڈ اور شہریت کے حصول کیلئے اپنے ہی ملک کے قومی مفادات کیخلاف اغیار کے اشاروں پر طوفان بدتمیزی برپا کیے ہوئے ہیں۔ آنکھوں کی بجائے ماتھے پر چشمہ لگائے ہیٹ پہنے ہاتھ میں گوچی کا پرس لٹکائے یہ طبقہ اپنے ہی ملک کی حفاظت کی ذمہ دار پاک فوج اور آئی ایس آئی کیخلاف برسرپیکار ہے۔ مگر پاکستان کے اندر بلوچستان اور کراچی میں ’’را‘‘ کے ایجنٹ دندناتے پھر رہے ہیں اور جب ملکی سلامتی کا کوئی ادارہ انکی پوچھ گچھ کرے توانسانی حقوق کے یہ علمبردار بارش کی کھمبیوں کی طرح نکل آتے ہیں۔ پوری دنیا میں یکم مئی کو شکاگو کے شہید مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ فیکٹریوں ،ملوں اور اداروں میں چھٹی کی جاتی ہے مگر کیا آپ کو پتا ہے کہ امریکہ میں یہ دن منانے پر پابندی ہے؟ قارئین گذشتہ ہفتوں سے وطن عزیز ایک سکینڈل اور کرائسس سے گزر رہا ہے۔ پانامہ نامی معاشی سکینڈل نے ایوانِ اقتدار کے در و دیوار ہلا دیئے ہیں۔ یقینا حکمران اپنے تمام تر سرکاری اور غیر سرکاری وسائل استعمال کرکے اس بحران سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر حصول اقتدار کی اس جنگ میں میڈیا کلیدی رول ادا کر رہا ہے۔ گذشتہ روز ایک بڑے میڈیا گروپ کے گروپ ایڈیٹر شاہین صہبائی صاحب نے استعفیٰ دے دیا ہے اور اپنے استعفے میں وہ لکھتے ہیں کہ وہ ون سائیڈ نہیں ہو سکتے۔ میڈیا کو کبھی بھی اپنا غیرجانبداری کا رول ادا کرنے سے نہیں گھبرانا چاہیے۔ اگر ہم دشمن کے میڈیا پر انگلی اٹھاتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں ’’جھوٹ بول نیں ایں جھوٹیے آکاش وانیئے‘‘ تو ہمیں اپنے گھر میں اپنی چارپائی کے نیچے بھی ڈانگ پھیرنی چاہیے۔ ہمارے صحافیوں کا ایک بڑا طبقہ، ہمارے دانشور ،ہمارے اینکرز ،ہمارے کالم نگار حضرات زرد صحافت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اب تو بات لفافوں سے آگے نکل کر غیر ملکی اکائونٹس تک جا پہنچی ہے۔ اکثر طاقتور اینکرز اور کالم نگاروں کی آف شور کمپنیاں دیارِ غیر میں موجود ہیں۔ کل تک جو صحافی، رپورٹر ڈیوس روڈ پر پھٹے پاجامے اور ایک ہاتھ میں پنکچر سائیکل تھامے نظر آتاتھا آج اس صحافی کی کمپنیاں، اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ ہیں اور حسین نواز کی طرح کچھ صحافی حضرات بھی کہتے سنے گئے ہیں کہ الحمدللہ ہم قیام پاکستان سے پہلے بھی کروڑ پتی تھے مگر قارئین جس ملک میں زہریلی مٹھائی کھا کر 35افراد دو ہفتوں میں جان کی بازی ہار جائیں اور وزیراعظم صاحب محض اپنا بلڈ پریشر چیک کروانے کروڑوں روپے لگا کر لندن چلے جائیں اور جس ملک کا سرکاری میڈیا عوامی ترجمانی نہ کرے بلکہ ’’بیربل‘‘ میڈیا بن جائے جس ملک کے دانشور، صحافی ،قلمکار ،لکھاری عوامی سمت متعین کرنے کی بجائے کروڑوں، اربوں بنانے کے چکر میں پڑ جائیں اس ملک کا بس ایک ہی علاج رہ جاتا ہے وہ ہے احتساب اور انقلاب، جس کیلئے عوام کا بیدار ہونا لازمی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024