حنیف رامے مستند سیاسی ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انٹرنیشنل دانشور بھی تھے۔ اُن کی شہرہ آفاق کتاب ’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ کے ایک چیپٹر ’’تاریخ کا تشدد‘‘ سے کچھ اقتباسات پڑھتے ہیں۔ ’’پنجاب محض تاریخ کی ایک اہم ترین شاہراہ ہی نہیں ایک زرخیز زمین بھی تھی جو شمال کے فاقہ زدہ قبائل کو قریب آنے کی ترغیب دیتی رہتی تھی۔ چار ہزار سال پہلے یہ سرزمین (آج کا پاکستان) دنیا کی چند گنی چنی تہذیبوں میں سے ایک پرامن تہذیب کا گہوارہ تھی۔ سرحد (خیبرپختونخوا) سے بلوچستان تک پھیلی ہوئی اس تہذیب کا مرکز پنجاب میں ساہیوال کے قریب دریائے راوی کے کنارے آباد شہر ہڑپہ تھا۔ اس پرامن معاشرے کے ارکان اس وقت بھی کسی ایک نسل سے تعلق نہ رکھتے تھے بلکہ ان میں دراوڑیوں کے علاوہ حبشی، بابلی، منگولی اور بحیرہ روم کے آس پاس آباد قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے۔ جب آریائوں نے پنجاب کا رخ کیا تو صدیوں کے اس میل ملاپ میں ہلچل اور گڑبڑ پیدا ہوگئی اور پھر یہی ہلچل اور گڑبڑ اس خطے کی تاریخ اور تقدیر بن گئی۔ پنجاب کے قدیم باشندے دنیا کی اُن اولین قوموں میں شامل تھے جو روئی پیدا کرنے اور کاتنے میں مہارت رکھتی تھیں۔ بیرونی حملوں سے نفسیاتی بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے جس سے انسان کی عزت نفس مجروح ہوجاتی ہے اور وہ اپنے اندر کسی جگہ اپنے آپ سے شرمندہ رہنے لگتا ہے۔ آج اگر پنجاب اپنے آپ سے شرمندہ شرمندہ نظر آتا ہے تو اس کے پیچھے تاریخ کے اس تشدد کو دیکھناچاہئے جو آریائی قبائل سے شروع ہوکر یونانی، باختری، ساسانی، پہلوی، ہن، تاتاری، غزنوی، مغل، درانی، ابدالی اور انگریز حملہ آوروں تک جاری رہا۔ اردو زبان نے ’’پورس کے ہاتھیوں‘‘ کو محاورے میں ڈھال دیا ۔ پنجابیوں نے اردو زبان اپنالی اور اپنی ہی تاریخ کو بھلا دیا۔ جب تک وہ اپنی زبان بولتے اور اسی میں سوچتے رہے وہ جذبہ مزاحمت کے وارث رہے لیکن جب سے اردو بولنے اور اس میں سوچنے لگے ہیں، وہ حملہ آوروں سے مرعوب ہوکر رہ گئے ہیں۔ سکندر یونان سے چلتے چلتے پنجاب پہنچ گیا اور کسی مائی کے لال نے اس کی سیلاب کی طرح امڈتی فوجوں کے آگے بند نہ باندھا لیکن پنجاب پہنچ کر ان کے حوصلے کیوں پست ہوگئے؟ ایسا کیونکر ہوا کہ دریائے بیاس کے دوسرے کنارے کھڑے پنجابیوں نے اس فاتحِ عالم اور اس کے ساتھیوں کو منہ لپیٹ کر پلٹ جانے کی راہ دکھا دی؟ سکندر سے پہلے پنجابیوں نے قرآن پاک میںمذکورہ ایرانی سلطنت کے بانی ذوالقرنین، جسے مولانا ابوالکلام آزاد کی تحقیق کے مطابق ’’سائرس دی گریٹ‘‘ کہا جاتا ہے، کوبھی شکست دی تھی۔ پنجاب نے تاریخ کے تھپیڑوں میں بہت کم سُکھ کا سانس لیا ہے۔ بیشک تاریخ کے اس تشدد نے پنجاب کے کردار میں پھرتی، چابکدستی اور لچک پیدا کردی ہے اور اسے زندگی کے مشکل ترین لمحات میں بھی جینے کا حوصلہ بخشا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے اندر ایک عدم استحکام، ایک عدم تحفظ اور ایک خاص طرح کی بے بسی کو بھی جنم دیا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر تاریخ کے تشدد کا نتیجہ یہ مرتب ہوا ہے کہ پنجاب نے پنجاب کے اعتبار سے اپنی پہچان چھوڑ دی۔ مصیبت یہ ہے کہ آج بھی اس کے شہروں اور قصبوں میں بربریت اور بربادی کی ایسی ایسی نشانیاں موجود ہیں جو یاد نہ رکھنے کی خواہش کے باوجود پنجاب کو یاد دلاتی رہتی ہیں کہ گزشتہ قدیم صدیاں تو دور رہیں حالیہ دو ایک صدیوں میں بھی اس کے ساتھ کیا کچھ نہ ہوا تھا۔ اس امیدو یاس اور تخریب نے اہل پنجاب کے مزاج میں دو نفسیاتی رویوں کو جنم دیا ہے۔ پہلے رویئے کو دشمنانہ نظر سے دیکھیں تو کہا جائے گا کہ پنجابی حال مست اور کھال مست ہوگئے ہیں۔ ذرا محبت کی نظر سے دیکھا جائے تو اسے صابرو شاکر ہونا بھی کہہ سکتے ہیں لیکن میری نظر میں یہ رویہ ایک نفسیاتی بے بسی سے عبارت ہے۔ دوسرا رویہ پنجابیوں کی یہ خواہش ہے کہ کوئی ایسا قابل اعتماد نظام حکومت موجود ہو جو ان کی حفاظت کی ضمانت دے۔ اسی لئے پنجاب نے ملک کے اندر ہمیشہ مضبوط مرکز کی ضرورت محسوس کی ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی پنجاب کی سرحدیں ہمیشہ حملہ آوروں کی زد میں رہیں۔ 1965ء اور 1971ء کی باقاعدہ جنگوں کے دوران زیادہ تر پنجاب ہی کا خون بہا ہے، زیادہ تر پنجاب ہی کے کھیت کھلیان تباہ ہوئے ہیں۔ پنجاب کو جنگ کا بخار نہیں، امن کی آرزو ہے لیکن اس کی تاریخ نے اس کی ہڈیوں کے گودے تک میں یہ اطلاع بہم پہنچا دی ہے کہ امن کی آرزو کا متحمل کوئی کمزور نہیں ہوسکتا، جسے امن چاہئے اسے طاقتور ہونا ہوگا۔ پنجاب طاقتوروں اور زبردستوں کے ہاتھوں ان گنت مرتبہ تباہ و برباد ہوا ہے لیکن اب اس کے ضمیر میں ایک کانٹا بھی اُگ چکا ہے کہ میں کب تک حملہ آوروں کے ہاتھوں لٹتا رہوں گا۔ پنجاب نے پاکستان کے ساتھ اپنے آپ کو فنا کی حد تک وابستہ کرکے اُن زخموں سے نجات پانے کی راہ نکالی جو تاریخ نے صدیوں تک اس کے جسم پر لگائے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ پنجاب جو صدیوں تک تاریخ کے ظلم و ستم کا شکار رہا اور آج بھی زندہ و پائندہ ہے، اپنے اندر موجزن زندگی کی بے پناہ قوت کو کام میں لاتے ہوئے اُن رویوں اور رجحانات کو اپنانے میں دیر نہیں کرے گا جن سے وہ اپنے آپ سے شرمندہ شرمندہ رہنے کے بجائے فخر سے سراٹھا کر چل سکے‘‘۔ حنیف رامے نے ’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ جولائی 1985ء میں شائع کی۔ وہ کتاب کی تیاری میں ڈاکٹر مبشر حسن، پروفیسر محمد عثمان، مسعود کھدر پوش، عبداللہ ملک، راجہ غالب احمد، سید سبط الحسن ضیغم، منو بھائی، نجم حسین سید، میاں محمد اسلم، بیرسٹر نسیم احمد باجوہ، ضیاء شاہد، ارشاد احمد پنجابی اور بشیر حسین بھٹی کے شکرگزار تھے۔ تا ہم پنجاب 2017ء میں بھی افغان خودکش حملہ آوروں کا شکار ہے۔ وہ امن کے لئے اپنے ہاں موجود لوگوں کے کوائف جمع کرتا ہے تو اُس پر صوبائی تعصب کے الزام کے حملے شروع ہوجاتے ہیں جن میں پنجاب کے کئی اپنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ وطن سے محبت کے لیے پاکستانی پنجاب نے اپنی مادری زبان پنجابی کی بجائے قومی زبان اردو کو اس حد تک اپنالیاہے کہ ’’پاکستانی پنجابی‘‘مستقبل میں دنیا سے مٹ جانے والی زبانوں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔مادری زبان کی قربانی صرف پنجاب نے ہی دی ہے۔اسی لیے نامور مورخ پروفیسر فتح محمد ملک نے لکھا کہ ’’پنجاب کی مادری زبان اردو ہے ‘‘ ۔کیا حنیف رامے کی کتاب کی تیاری میں اوپر دیئے گئے مددگاردانشوروں میں سے یا کوئی دوسرا دانشور ہے جو 2017ء میں پنجاب کا مقدمہ لڑسکے؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38