سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے مسلم لیگ ن بڑی بے چین ہے۔ اسکے رویے میں اضطراب 23فروری کو دیکھنے میں آیا، اس سے پہلے سب اچھا تھا۔ عمران خان ایک ماہ سے سینٹ الیکشن میں خریدو فروخت پر واویلا کررہے تھے۔ میں نے اپنے کالموں میں سینٹ کے الیکشن اوپن کرانے کا کئی بار مطالبہ کیا تھا۔ اسکے بعد عمران خان پہلے سیاستدان ہیں جنہوں نے سینٹ کے الیکشن سیکرٹ بیلٹ کے بجائے اوپن ووٹنگ سے کرانے کا مطالبہ کیا مگر اس کو میاں نواز شریف کے کاسہ لیسوں نے مذاق کا نشانہ بنایا۔ عمران خان جوکہتے تھے وہ ہوتا رہا یعنی کھل کر ہارس ٹریڈنگ ہوتی رہی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے بقول سینٹ کے امیدوار نوٹوں کے بیگ اُٹھا کے گھومتے رہے ہیں۔ ہر پارٹی نے اپنے اپنے نمبر پورے کرنے کی کوشش کی، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے اپنی طرف سے یہ معرکہ مار لیا جبکہ مسلم لیگ بھی کچھ کم نہ تھی مگر شاید ان سے پیچھے رہ گئی اور پھر ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ یاد آگیا۔ پاکستان میںہارس ٹریڈنگ کا بانی تو کوئی اور ہوگا البتہ آج کی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنما اسکے معماروں میں شامل ہیں۔ نوے کی دہائی میں دونوں پارٹیوں نے ہارس ٹریڈنگ کی نئی تاریخیں رقم کیں۔کسی نے اپنے گھوڑے چھانگا مانگا میں باندھے کسی نے سوات میں ان کو رکھ کر خدمات کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تھی، اس موقع پر دونوں طرف سے عوامی نمائندوں کو خریدا گیا۔ آج مولانا فضل الرحمن اور راجہ پرویز اشرف کہتے ہیں کہ ارکان اسمبلی بکائو مال نہیں ہیں۔ واقعی ہر رکن بکائو مال نہیں ہے ، مگر نہ بکنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ مولانا اور راجہ یہ بتا دیں کہ ارکان پارلیمنٹ کب نہیں بکے۔ ایسی خریدو فروخت پر مسلم لیگ ن نہ صرف معترض نہیں رہی بلکہ اس کارخیر میں اس کا ریکارڈ بڑا درخشندہ ہے۔ نوے کی دہائی میں نہ جائیں ماضی قریب کی بات کریں مسلم لیگ نے کس طرح پیپلز پارٹی کے پچاس کے قریب ارکان خرید کے اپنے پانچ سال مکمل کیے ۔اسی طرح پیپلز پارٹی ہی کے درجن بھر ایم این اے مشرف کی گود میں جا بیٹھے تھے۔ راجہ پرویز اشرف بتائیں کہ اور بکائو مال کس کو کہتے ہیں۔ میاں نواز شریف جلاوطن ہوئے تو انکی پوری پارٹی آمریت کے قدموں میں بیٹھی تھی یہ شاید بنا مول کے ہی بک گئی تھی۔ پیپلز پارٹی والوں کو تو لگتا ہے بکنے کا چسکا لگا ہوا ہے جس کی مثال یونی فکیشن بلاک اور مشرف دور کا فارورڈ بلاک ہے۔مسلم لیگ ن کی قیادت جس طرح ارکان کو خریدتی ہے اسکی ایک مثال برادرم فضل اعوان کے کالم سے میں دینا چاہتا ہو ں۔’’آفتاب احمد خان شیرپائو کے ساتھ خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ پر قبضے کیلئے مقابلے کے وقت میاں محمد نوازشریف صاحب نے خیبرپختونخوا کے اراکین اسمبلی کو خریدنے کی ذمہ داری اپنی پارٹی کے غفور خان جدون اور اے این پی کے فرید خان طوفان کو دی تھی۔ کیپٹن صفدر اورمحترمہ ریحام خان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک رکن صوبائی اسمبلی کو قائل کراکے فرید طوفان میاں صاحب کے پاس لاہور لے گئے۔ بات طے ہوگئی لیکن ایم پی اے صاحب نے کہا کہ انہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ میاں صاحب کے پیسوں کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ میاں صاحب اور فرید طوفان نے ان سے کہا کہ آپ اپنی قسم پر قائم رہئے۔ آپ جھولی کو ہاتھوں سے پکڑ کر آگے لائیے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ فرید طوفان نے رقم انکی جھولی میں ڈال دی۔ ایم پی اے صاحب رقم کو ہاتھ لگائے بغیر جھولی میں اسے گاڑی تک لے گئے اور پچھلی نشست میں پھینک کر ڈرائیور کو اسے گننے اور سنبھال کر رکھنے کا کہا۔ یوں انکی قسم کی لاج بھی رکھی گئی اور میاں صاحب کا کام بھی ہوگیا۔‘‘ ہارس ٹریڈنگ اور کرپشن ہمارے سیاستدانوں کے روئیں روئیں میں رچی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن نے سندھ کے لوگوں کو پنجاب اور خیبر پی کے کے امرا کو اسلام آباد سے ٹکٹ دیئے ہیں۔ پی پی پی نے دوسرے صوبے کے امیر زادوں کو سندھ بلا لیا۔پنجاب میں پی پی پی کوئی سیٹ بنتی ہی نہیں یہاں بھی دو امید وار میدان میں اتار دیئے ۔ خیبر پی کے میں پی پی پی اور جے یو آئی سیٹوں کے مقابلے میں دوگنا امیدوار کو ٹکٹ جاری کر چکی ہے۔ بتائے کیا یہ کھلی ہارس ٹریڈنگ نہیں ہے۔ہارس ٹریڈنگ سے آج پی پی پی اور جے یو آئی کو فائدہ تو ترمیم کی مخالفت میں متحد ہوگئی ہیں جبکہ خود کو خسارے میں دیکھ کر ن لیگ ترمیم کا واویلا کررہی ہے۔ نوا زلیگ کے مؤ قف کو اصولی کہا جاسکتا ہے مگر یہ اصول صرف سینٹ کے ایکشن تک ہی محدود کیوں ہے۔عمران خان کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا اصولی نہیں ہے؟ ماڈل ٹائون میں 17جون 2014ء کوپاکستان عوامی تحریک کے سو کارکنوں کو خاک اور خون میں نہلا دیا گیا اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کیا اصولی مطالبہ نہیں ہے۔ اس سے مسلم لیگ ن انحراف کررہی ہے ۔یہ تو میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو والی بات ہے۔ اصولوں کا درد سینٹ کے الیکشن میں اٹھا، اپنی نیّا ڈوبتے دِکھی تو ترمیم یاد آگئی۔ چودھری شجاعت نے درست کا کہ یہ کھوتا ٹریڈنگ ہے۔ہارس ٹریڈنگ ہو یا کھوتا ٹریڈنگ ہو یہ ترمیموں سے نہیں رک سکتی۔اسکے خاتمے کیلئے قیادتوں کو اپنے رویے بدلنا ہونگے۔ آپ نے جنرل الیکشن میں ایماندار لوگوں کو میرٹ پر ٹکٹ دئے ہوتے تو وہ آج بک نہ رہے ہوتے۔وقتی طور پر جے یو آئی اور پی پی پی ہارس ٹریڈنگ پر بڑے خوش ہیں۔ ان کو اربوں روپے کی آمدن ہورہی ہے۔کل انکے لوگ بکے تھے آنے والی کل بھی بکیں گے ۔ لیکن پیشہ دیکھ کے شرم ان کو مگر نہیں آتی۔ اصولوں کی بات ان سے کیا کی جائے ان کا تو اول و آخر اصول ہی پیسہ ہے۔ مولانا اور اور زرداری نے جتنا پیسہ بنا لیا ہے خرچ کرنے کے حوالے سے انکی عمر دس ہزار سال تو کم از کم ہونی چاہیئے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے یہ سونے کے تابوت بنوا کر اسکے دوسرے خانے میں تمام دولت بھر کے ساتھ لے جانے کی وصیت کردیں۔ زرداری تو ماشاء اللہ خود کو وصیت ماسٹر ثابت کر چکے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024