جمہوریت کا روز تماشہ لگتا ہے پاکستان میں جمہوریت کٹھ پتلی شو ہے۔ اس جمہوریت میں آمریت کی بو آتی ہے۔ پاکستان میں کوئی شریف، ایماندار، محنتی آدمی سیاست میںحصہ نہیں لے سکتا کیونکہ یہاں ایمانداری سے کمائی گئی رقم میں دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھائی جا سکتی۔ امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے ٹھیک ہی تو کہا ہے کہ کچھ لوگ بریف کیس لئے گھوم رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ شفاف الیکشن کرائے۔ سراج الحق بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں ’’ایمانداری‘‘ کا کتنا قحط ہے۔ الیکشن کمیشن میں بھی سیاستدانوں کے ہی بھائی بند بیٹھے ہیں اور ہر شخص کرپشن کی گنگا میں ہاتھ دھونے کے بجائے نہا لیناچاہتاہے۔ سینٹ الیکشن کی تیاری میں حکمرانوں اور سیاستدانوں نے پورے فروری میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے، ہر طرف سے بولیوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ سینٹ کا الیکشن ایک زبردست کاروباری مرکز بن گیا ہے۔ غریب ملک کے امیر سیاستدانوں نے ایک ایک سیٹ کا سودا کروڑوں میں طے کیا ہے۔ جہاں ایک سیٹ کے کروڑوں لگے ہوں اور ایمانداری کو گروی رکھ دیا گیا ہو وہاں اس سیٹ کو جیت کر آنیوالوں سے کیا امید کی جا سکتی ہے کہ وہ عوام کیلئے کچھ کرینگے۔ پاکستان میں ’’جمہوریت‘‘ نام ہے اپنی خدمت کرنے کا، اپنا آپ منوانے کا اور مال پانی بنانے کا۔ یہی وجہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے آئینی ترمیم پراتفاق نہیں ہو سکا تاہم حکومت فارمیلٹی کے تقاضے پورے کرنے کیلئے 22 ویں ترمیم کا بل پیش کررہی ہے۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن پورے طمطراق سے آصف زرداری سے ملنے گئے۔ دونوں رہنما ایک دوسرے سے ایسے ملے جیسے صدیوں سے بچھڑے ہوئے دو بھائی ایک دوسرے سے ملیں۔ کیا بھائی چارہ تھا اورکیا مسکراہٹوں کے تبادلے تھے۔ مولانا فضل الرحمان کو ابتک دو خطاب مل چکے ہیں۔ ہر برے وقت میں خود کو کیش کرانے کے فن میں ہر فن مولا ہیں۔ آصف زرداری پہلے ٹین پرسنٹ کے نام سے شہرت رکھتے تھے، اب تو90 پرسنٹ بن چکے ہیں۔ بحران پیدا کرنا اور بحران ٹالنا … دونوں کاموں میں انہیں کس قدر مہارت حاصل ہے۔ آصف زرداری نے اس موقع پر صحافیوں کے اس دیرینہ سوال کا جواب دیکر بھی سب کو لاجواب کر دیا کہ میرا تو ایک ہی بیٹا ہے اور باپ بیٹے میں اختلاف کیسا، اس سوال کے جواب کے بعد چہ میگوئیوں اور پیشین گوئیوں کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ آصف زرداری ساری پریس کانفرنس میں چھائے رہے اور مسکراہٹیں انکے گالوں پر رقص کرتی رہیں۔ گویا بغیر خنجر اور تلوارکے، بغیرگولی اور بارود کے، بغیر گالی اور دشنام طرازی کے آصف زرداری نے میدان مار لیا۔ مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ’’فائدے‘‘ کی خاطر انکے اصول، قوانین سبھی میں تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے ’’لچک‘‘ میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ ثابت ہو گیا کہ پاکستان میں ایمان، اصول اور قانون کی کوئی حیثیت نہیں۔ صرف پیسہ، عہدہ اور اختیار ہی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ کوئی غریب، سفید پوش یا متوسط طبقے کا آدمی الیکشن کبھی نہیں جیت سکتا۔ پاکستان میں کوئی مڈل کلاس یا تعلیم یافتہ آدمی اپنی قابلیت اور اہلیت کے بل پر سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا۔ کوئی عام آدمی صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیراعلیٰ یہاں تک کہ ایم پی اے بھی نہیں بن سکتا۔ ناانصافی اور حق تلفی کے اس درد کو سیاستدانوں کا یہ امیر و کبیر طبقہ کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ جب بی اے کی شرط لاگو کی گئی تھی تو انہی سیاستدانوں نے اپنی بیویوں، بیٹیوں، بہنوں کو جعلی ڈگریوں پر اسمبلی بھیج دیا جب اس طرح کی جعلسازیوں، اقربا پروریوں، سازشوں، رشوتوں، سفارشوں سے اسمبلیاں وجود میں آئینگی تو ان کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسمبلیوں میں آج بھی ایک بڑی تعداد ایسے ارکان کی ہے جن کی ڈگریاں جعلی اور جن کی لیاقت مشکوک ہے جنہیں نہ آئین کا پتہ نہ قانون کا، ان میں خواتین کی بڑی تعداد ایسی ہے جو محض اسلئے اراکین اسمبلی ہیں کہ انکے شوہر، باپ، بھائی، بیٹے یا چچا، ماموں نامی گرامی سیاستدان ہیں۔ سابقہ ادوار میں چار ایسی خواتین بھی تھیں جنہیں وزیر یا وزیر مملکت بنا دیا گیا مگر وہ کبھی آفس تک نہیں آتی تھیں۔ انہیں اپنی وزارت تک کا صحیح طور پر علم نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے کبھی اپنی وزارت کے حوالے سے کوئی کام خود کیا۔ انکی وزارت کے تمام امور سٹاف انجام دیتا تھا۔ یہ ہمارے ملک کی سیاست اور نام نہاد جمہوریت کے منہ پر ایک نہایت بدنما اور شرمناک داغ ہے۔ آج بھی اسمبلیوں میں50فیصد ایسی خواتین موجود ہیں جنہیں محض اقربا پروری اور سفارش کی بنیاد پر سیٹیں تفویض کی گئیں ہیں۔ ان عورتوں کو اپنی نشست کے حوالے سے بھی ڈھنگ سے کچھ معلوم نہیں۔ وہ صرف اپنی سیٹ اور پر,ٹوکول، مراعات اور مفادات کو انجوائے کر رہی ہیں۔ آج جس سینٹ کی سیٹوں کیلئے دن رات سودے بازیاں ہو رہی ہیں ان میں آنیوالی آدھی خواتین وہ ہوں گی جنہیں ’’سینٹ‘‘ کے سپیلنگ بھی نہیں آتے ہونگے انہیں ’’سینیٹر‘‘ کے فرائض کی ایک شق بھی معلوم نہیں ہو گی۔ پاکستان میں اس وقت جعلسازیوں کا بازار گرم ہے۔ ہر شخص اپنے اپنے دائو پرلگا ہوا ہے کہ کہاں ہاتھ مارے اور ایک ہی باری میں سب کچھ سمیٹ کر لے جائے۔ ایوان بالا کے انتخابات میں بونوں کو نہیں آنا چاہئے۔ یہاں وہ دراز قامت افراد آنے چاہئیں جن کا ظرف بلند، اعلیٰ علم، بہترین کارکردگی اور بڑا کردار ہو۔ ایوان بالا میں بلند و بالا شخصیات آنی چاہئیں جو ان نشستوں کی ہم پلہ اور حقدار ہوں کیونکہ یہ اصول آئین اور قوانین کا منبع و مرکز ہے، لیکن یہاں وہ لوگ آ جاتے ہیں جو اپنی مدد آپ سے زیادہ اپنی خدمت آپکے فلسفہ کو مانتے ہیں جو لوگ پیار بھی شرطوں سے کرتے ہوں، جن کی سیاست کا مسلک خدمت کے بجائے دولت ہو، وہ کیا جانیں محبت خدمت جمہوریت کا نشہ کیا ہوتا ہے…؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38