نصف صدی سے زیادہ عرصہ مشرق وسطیٰ امریکہ کا اتحادی رہا ہے اور پھر جنگ کویت کے بعد سے عرب سرزمین امریکی افواج کا مستقل عسکری اڈہ ہے۔ 19ویں صدی میں عربوں کا تیل امریکہ و یورپ کیلئے اہم ترین دولت تھی۔مگر کیسی دلچسپ تبدیلی آئی کہ امریکی تیل ’’شیل‘‘ اور خلیجی عرب تیل میں بھرپور کشمکش ہوئی اور یوں تیل سستا ہوا۔ ایران کی معیشت بھی ’’مزید‘‘ زبوں حال ہوئی ایران امریکہ ایٹمی مفاہمت میں اس تیل بحران کا بھی وافر حصہ ہے۔ داعش کے وجود نے جو اصلاً حزب اللہ کو یرغمال بنانے اور عرب بادشاہتوں کیلئے امریکی شکنجے کا نام تھا۔ مشرق وسطیٰ میں مزید مدوجزر پیدا کردیا ہے۔ داعش دشمنی میں ایران عرب دشمنی کچھ کم ہو گئی ہے۔ سعودی عرب دوبارہ سے شاہ سلمان کی زیر قیادت بھرپور کردار کی طرف آگیا ہے۔ قطری سعودی اختلاف کم ہو گیا ہے۔ صدر اوبامہ کی ریاض آمد پر شاہ سلمان نے آواز اذان پر نماز کو ترجیح دیکر اسلامی تہذیب کو نئی زندگی دی تو وہ خود بھی اسلامی دنیا میں مسلمان شاہ کا نام پا گئے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں دہشت گردی کیخلاف 400 مسلمان اسکالرز کی اہم کانفرنس منعقد ہوئی ہے او آئی سی اور رابطہ عالم اسلام کی بھرپور کاوشوں کی یہ کانفرنس مظہر تھی علماء مصراور ازہر کے مفتیاں نے پورے جوش سے مکہ کانفرنس میں اظہارخیال کیا ہے۔ پاکستان سے وزیر مذہبی امور سردارمحمد یوسف جو کہ نظام صلوۃٰ کے قیام کے متمنی ہیں اور تدریس عربی کے بڑے حامی ہیں‘ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کانفرنس میں شرکت کی جبکہ ممتاز محقق‘ مصنف دانشور صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ڈاکٹر احمد الدریوش کافی دن پہلے ہی اس کانفرنس میں شرکت اور عربی زبان کی تدریس میں پیش رفت کیلئے ریاض چلے گئے تھے۔ سعودی مفتی اکبر (مفتی اعظم لکھنا اور کہنا بالکل غلط ہے) الشیخ عبدالعزیز نے کھل کر القاعدہ و داعش کو فتنہ و فساد کا نام دیا اور ان کے جنگی اعمال‘ معصوم انسانوں اور مسلمانوں کے قتل کو اسلام سے بغاوت و سرکشی کا نام دیا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا دہشت گردی کیخلاف نیا عزم بھی سامنے آیا یوں مکہ مکرمہ کانفرنس بہت عمدہ اسلامی موقف کو سامنے لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ریاض اور جدہ اب پھر سے مشرق وسطیٰ کی سیاست و فیصلہ سازی میں نمایاں کردار پا رہے ہیں اردن کے شاہ عبداﷲ نے جدہ میں شاہ سلمان سے مشاورت کی تھی جبکہ اخوان کی آزمائش سے دوچار مصری صدر جنرل عبدالفتاح السیسی نے بھی ریاض میں آکر شاہ سلمان سے مشاورت عمل پیش کیا ہے۔ آج کی مصری فوج سعودی عرب کی اتحادی ہے بالکل اسی طرح جیسے لبنان کی فوج سعودی عرب کی اتحادی ہے۔ ترکی مسلمان دنیا کا اہم ترین ملک‘ ترک صدر طیب اردوان نے جب سے خلافت عثمانیہ کے راستے کو پسند کیا ہے کیوبا میں تاریخی مسجد کو بنانے میں دلچسپی لی ہے ان کیخلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ مگر وہ باہمت ہیں وہ شاہ سلمان کی دعوت پر جدہ آئے ہیں ان کا استقبال گورنر مکہ شہزادہ مشعال بن ماجد نے کیا اور وہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد شاہ سلمان سے عملی مشاورت کر چکے ہیں۔ ترک و سعودی عرب کی رفاقت ماضی بعید کے اسلامی عہد کے احیاء کا نام بھی بن سکتا ہے جس میں پاکستان کی شرکت زیادہ مفید ثابت ہو گی ۔ ان شاء اﷲ 3 مارچ کو وزیراعظم پاکستان بھی جدہ جائینگے عمرہ کی ادائیگی‘ مدینہ منورہ میں حاضری کے بعدوہ بھی شاہ سلمان سے جدہ میں ملیں گے۔ یہ سارا عمل مسلمانوں میں ز یادہ قرب کو سامنے لارہا ہے۔ اب آئیے ذرا متحدہ عرب امارات کی طرف جس کا ابوظبی آل نھیان اور دوبئی آل مکتوم کی بادشاہت کا مظہر ہے۔ ان دونوں خاندانوں کی عقل مندی نے ابوظبی اور دوبئی (آل مکتوم جس کے موجودہ قائد محمد بن راشد المکتوم وزیراعظم متحدہ عرب امارات ہیں) کو دنیا بھر میں مقبول بنا دیا ہے امارات کے موجودہ حکمران (صدر خلیفہ بن زاید النہیان) الشیخ زاید بن النھیان کے بیٹے ہیں۔ ہم نے گزشتہ کالم میں شہزادی فاطمہ کا عربی اخبار میں شائع شدہ خبر کے حوالے سے ذکر کیا تھا۔ مگر حقیقت میں وہ الشیخ زاید کی بیٹی نہیں بلکہ بیوی ہیں اور موجودہ حکمران کی والدہ محترمہ ہیں انہیں امارات میں الشیخۃ فاطمہ کہا جاتا ہے وہ بہت پاکستان دوست ہیں پچھلے ہفتے ابوظہبی میں عالمی سطح کی عسکری نمائش ہوئی تھی جس میں جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی تھی۔ پاکستان اور امارات کی افواج میں عسکری امور پر مزید قربت کا عزم گزشتہ برس سامنے آیا تھا اس بات کا پھر سے تذکرہ ہوا ہے امارات کے سفیر عیسیٰ عبداﷲ الباشا‘ فرسٹ سیکرٹری مطہر علی المنصوری‘ ڈائریکٹر جنرل راشد علی المزروعی اگرچہ بہت متحرک ہیں مگر انہیں امارات کے حکمران خاندانوں کے سیاسی مفادات کیلئے اور امارات پر عجیب و غریب لگنے والے الزامات کی وجہ سے مزید متحرک ہونا پڑیگا۔ ویسے تو تمام عرب بادشاہتوں کے سفراء کو بہت زیادہ متحرک رہنا ہوگا کیونکہ پاکستان کے میڈیا میں ’’برادر اسلامی ممالک‘‘ کیخلاف اب آسانی سے باتیں کہی جا رہی ہیں مشرق وسطیٰ میں دلچسپ ترین معاملہ اسرائیل کا ایران کے ایٹمی پروگرام کیخلاف شور کرنا ہے۔ حالانکہ ہماری نظر میں اسرائیل کو ایران سے نہ کبھی ماضی میں خطرہ تھا نہ ہی مستقبل میں ہو گا مگر وہ امر یکہ و یورپ سے مزید فوائدکیلئے یہ شور کرتا ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ ایران اور امریکہ مفاہمت کی ضرورت کے قائل ہو چکے ہیں اگرچہ ایران میں کچھ قدامت پسند انقلابی اذھان تاحال اسے اپنی شکست تصور کرتے ہیں ہمارا مطالعہ مشرق وسطیٰ اور وجدان بتاتاہے کہ امریکہ کیلئے افغانستان سے بھی بڑا عذاب مشرق وسطیٰ بننے جا رہا ہے۔ امریکہ کیلئے نیا ویت نام تخلیق ہو رہا ہے۔ داعش نے اسے استعمال کر لیا اور داعش کا وجود جتنا امریکہ کیلئے باعث فائدہ ہو گا۔ اتنا ہی عرب بادشاہتوں کیلئے باعث تباہی ہو گا۔ عرب بادشاہتوں کو شاید اپنے عوام کیلئے زیادہ معاشی سہولتیں دنیا ہوں گی۔ جیسا کہ شاہ سلمان نے سعودی عوام کیلئے مہیاکی ہیں۔ بحرین کے شاہ کو شاید زیادہ کشادہ دل ہونا چاہئے۔ ایران کو بھی عربستان کے سنی عربوں اور سیستان کی بلوچ سنی اقلیت کو زیادہ حقوق دینا پڑیں گے۔ ورنہ سب کچھ سیاسی طورپر تبدیلی کے طوفانوں کی نظر ہو جائے گا۔ مشرق وسطیٰ میں شیعہ وسنی تصادم کی جگہ افہام و تفہیم اور سیاسی وحدت‘ واحد حل ہے جس طرح عراق سے نور المالکی اقتدار کا خاتمہ ہوا اور معتدل نیا حکمران آیا ہے یعنی فارمولہ شام کے بشارالاسد کے حوالے سے سامنے آنا چاہئے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38