برسراقتدار آنے کے بعد مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوئوں پر بڑھتے تشدد۔ بربریت نے ’’انڈیا‘‘ کے شایئنگ چہرے کو سیاہی میں بدل ڈالا۔پہلی مرتبہ خاموشی توڑی۔ اِس طرف گاندھی کے خوابوں جیسا ملک بنانے کا اعلان ہو رہا تھا۔ گائو رکھشا کے نام پر قتل عام قبول نہ کرنے کا دعوی فضا میں تھر تھرارہا تھا عین اُسی وقت ’’ جھاڑ کھنڈ‘‘ میں مجمع نے گوشت خریدتے ایک مسلمان نوجوان کو شہید کر دیا۔
’’ میرے نام پر خون مت بہائو‘‘۔
بھارتی سرکار کے مکروہ عزائم کو اُسی کے شہریوں نے دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ بھارت بھر میں مسلمانوں۔دلتوں پر تشدد۔ظلم کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے۔ ’’ناٹ ان مائی نیم‘‘ نامی تحریک نے سرکار کو پیغام دیا کہ میرے نام پر خون مت بہائو۔تحریک کے منتظمین نے حکومت پر زور دیا کہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب عناصر کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔انڈیا اس وقت ’’27‘‘ کے قریب علیحدگی پسند تحریکوں کا سامنا کر رہا ہے۔ مختلف ریاستوں میں مرکز کی جابرانہ ۔غیر مساوی سلوک اور امیتازی قوانین کے سبب نفرت کے آلائو دہک رہے ہیں۔ صرف کشمیر ہی نہیں۔ ’’دار جلنگ‘‘ میں بھی علیحدہ وطن ’’ گورکھا لینڈ‘‘ کی تحریک آزادی کی شدت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ نوجوانوںکے علاوہ ’’چھوٹے بچے‘‘ بھی ہراول دستہ کا سرگرم حصہ بن گئے ہیں۔ دو دن پہلے بچوں نے گلے میں زنجیر یں پہن کر احتجاج کیا۔’’مودی جی‘‘ کی جپھیاں ہمسایوں سے کترا کر صرف یورپ۔امریکہ یا ترا کے لیے مچلتی نظر آتی ہیں۔ ہمسایوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ۔ الزام تراشی دھمکیاں دینے میں مصروف انڈیا سے ’’ چین‘‘ نے دوبارہ سے" سکم سیکٹر" سے فوج نکالنے کا مطالبہ کر دیا۔ جو ہری صلاحیتں بڑھانے کا اعلان اور سر جیکل سڑائیک سے بڑھ کر دیگر آپشنز کی گیڈر بھبھکی کسی اور کے لیے ڈر۔ خوف کا باعث ہوگی۔ ہمارے لیے ایسا سوچنے والے خود ہی اپنی موت کا بندو بست کر رہے ہیں۔ ’’مودی۔ٹرمپ "جپھی کے بطن سے ایک" حریت پسند "کو دہشت گرد قرار دینے کا بچگانہ اقدام برآمد ہوا۔انصاف۔ جمہوری اقدار کا سب سے بڑا بزعم خود دعویدار نے مقبوضہ وادی میں ’’آپریشن آل آئوٹ‘‘ شروع کر کے عالمی برادری کو ’’موقع ‘‘ فراہم کر دیا ہے کہ وہ غفلت۔لاپرواہی کے اوڑھے کمبل کو اُتار پھینکے۔’’اربوں روپے‘‘ کے ہتھیار خریدنے والا امن کا داعی نہیں ہو سکتا۔انڈین پالیسوں سے صرف علاقائی امن ہی نہیں بلکہ عالمی سلامتی ۔ استحکام کے لیے بھی خدشات بڑھ رہے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں عید اجتماعات بھارتی فوج کے مظالم سے لہو لہان ہو گئے۔" موقع موقع "الاپتا انڈیا بد ترین۔ وحشیانہ دہشتگردی کی نت نئی داستانیں رقم کر رہا ہے ۔ وہ ملک کِسی کا سچا ۔ حقیقی دوست نہیں ہو سکتا جو اپنے شہریوں کو تحفظ دینے میں کلیتا ناکام ہو چکا ہو۔منہ عمل سے کتنے ہی قول قرار ہو جائیں۔ امریکی بیٹھک صرف اپنے مفادات کی نگہبان ہے۔ایک طرف دھمکیاں دوسری طرف رحم کی اپیل۔" انڈین جاسوس" کے ہوشر با ۔خوفناک انکشافات کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی۔ پوری دُنیا عالمی امن کے لیے پاکستانی کردار۔ خدمات کی معترف ہے۔پاکستانی سیاست و معاشرت کو اپنی سازشوں کے ذریعہ تہہ و بالا کرنے میں مصروف کار ملک کا اپنا ریاستی سرکاری ۔حاضر سروس اہلکار ۔ دہشت گردی کی سینکڑوں وارداتوں کی سرپرستی۔پلاننگ کا واشگاف اعتراف کر چکا ہے۔اِس کے باو جود ضد۔ہٹ دھرمی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ پوری مقبوضہ وادی کو شہر خموشاں میں بدلنے والے ملک کی صلاحیت قابلیت کا یہ عالم ہے کہ معیاری اسلحہ بنانے کی صلاحیت مفقود ہے۔ یہ ہم یا کِسی یورپی تحقیقی اخبار کی رپورٹ نہیں خود’’انڈین میڈیا‘‘ کا انکشاف ہے۔ اپنی ریاستوں سے مصروف پیکار ۔ ہمسایوںسے کیا لڑے گا؟؟
’’موقع ۔ موقع‘‘
’’پاکستانی‘‘ یہ قوم کتنی معصوم ہے۔ بارش ۔ گلیاں ندی نالے بن جائیں تو سر تک پانی میں خوشی سے چھلانگیں مارتے نظر آئیں گے۔5-6 لوگ ایک ہی موٹر سائیکل پر جُڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور موسم سے لطف اندوز ہونے میں تا خیر نہیں کرتے کہ بڑی سواری پکڑ لیں۔ جس کے جو ہاتھ لگتا ہے۔ پکڑ کر سیر کو نکل پڑتا ہے۔ پر جب ’’موقع‘‘ ملتا ہے تو یہی معصوم فطرت۔ نقش و نگار والے بے حد بڑے ۔غیر معمولی قدم اُٹھا جاتے ہیں۔ نعرے لگانے۔ گانے ایجاد کرنے والے سر پیٹنا شروع ہو جاتے ہیں پر ’’موقع‘‘ کوئی اور اُٹھا لے جاتا ہے یقینا موقع کوئی اور اُٹھا لے جاتا ہے۔ یقینا موقع۔ فائدہ کی ٹرافی صرف عقلمند۔زیرک۔ شیردل لوگ ہی اُٹھا سکتا ہے۔ سو خوب اُٹھا رہا ہے ۔ پوری وادی بے گناہ لوگوں کے خون سے مقتل گاہ بنی عالمی برادری سے فریاد کناں ہے۔ صرف ایک میچ کہ پورے انڈیا میں زخمی پٹاخے پھوٹ پڑے۔ یہ میچ نہیں ۔ایک نفسیاتی۔جذباتی کیفیت ہے جو ہر ایسے موقع پر پوری ’’مملکت خدا داد‘‘کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اِس کو گننے والے’’رنز‘‘ کا کرکٹ میچ نہیں کہہ سکتے۔ جنگ ہوتی ہے ۔جنگ اور جو جیت جائے ؟؟
سوچیں۔ ’’سوشل میڈیا‘‘ کی تھوڑی سی کاوش پر’’انہوں‘‘ نے ہاتھ جوڑکر معافی مانگ لی۔آج اگر جنگ چھڑجائے تو؟؟؟ ہم تو نہیں ڈرتے۔ بس جب بھی شروع ہوئی تو ’’موقع۔ موقع۔ موقع‘‘۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024