کس کا دماغی توازن درست نہیں ہے؟ اب سوال یہ آن کھڑا ہوا ہے۔ ہماری سیاست میں بالیدگی کے بجائے ”پالیدگی“ زیادہ ہے۔ پالیدگی کی اصطلاح میں نے ”پلیدی“ سے وضع کی ہے۔ جب اس ملک میں سب چل سکتا ہے تو پھر ”پلیدی“ بھلا ”پالیدگی“ کیوں نہیں ہو سکتا۔ بالیدگی کے مقابلے میں پالیدگی ہی ہم وزن ہے۔ جاوید ہاشمی نے اچانک کونے سے نکل کر فائر کیا ہے۔ خیر میں تو اسے خودکش حملہ کہوں گی کیونکہ جاوید ہاشمی کو70‘ 76 سال کی عمر میں سیاسی بلوغت اوربالیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ جاوید ہاشمی کو اپنے سیاسی کیریئر کو یوں داﺅ پر نہیں لگانا چاہئے تھا۔ انسان جو باتیں کرتا ہے‘ اس سے اس کا باطن بے نقاب ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے قد کا تعین بھی ہو جاتا ہے۔ جاوید ہاشمی نے اچانک آکر زوردار طریقے سے کہہ دیا کہ عمران خان کا دماغی معائنہ کرایا جائے۔ پاگل خانے کی رپورٹ آنے پر عمران خان سے جان چھوٹ جائے گی۔ یہ بات جاوید ہاشمی نے کافی چیخ چلا کر کہنے کی کوشش کی‘ لیکن ان کی آواز برسہابرس سے اس قدر بیٹھی بلکہ لیٹی ہوئی ہے کہ اس میں بات کم اور خرخراہٹ زیادہ ہوتی ہے۔ جاوید ہاشمی نے یہ بھی کہا کہ عمران اور میرا ڈوپ ٹیسٹ بھی کرایا جائے۔ ساتھ یہ بھی کہنے لگے کہ عمران خان کا میڈیا سیل مجھے دو سال تک گالیاں دیتا رہا جس پر انہیں شرم آنی چاہئے۔جاوید ہاشمی نے یہ بھی کہا کہ عمران خان 65 سال کے ہیں اور میں 67 سال کا ہوں۔ اس کے علاوہ بھی سیاست‘ عدلیہ اور فوج کے حوالے سے سنگین الزامات لگائے ہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ عمران خان ماضی میں بہت خوبصورت‘ وجیہہ اور شاندار تھے۔ عزت‘ شہرت‘ دولت‘ طاقت بھی بے حساب تھی۔ اس لئے ان کا ماضی رنگین ہے۔ ہمارے ہاں تو جن بھوت جیسے مردوں کا ماضی بلکہ حال بھی رنگینیوں سے مزین ہوتا ہے کیونکہ دولت‘ اقتدار‘ طاقت اور چالاکیاں ان کے پاس ہوتی ہیں۔ بہرحال (ن) لیگ کی طرف سے جاوید ہاشمی کی طرف سے یہ انتہائی سنگین الزامات ایک نئے کھیل کی ابتدا ہے جس کی کڑیاں پانامہ لیکس سے جا ملتی ہیں تاکہ یہ جنگ چھیڑ کر عدلیہ‘ فوج اور قوم کی توجہ پانامہ لیکس سے ہٹائی جائے اور عمران خان کو اچھی طرح پلید کیا جائے۔ میں صرف چند نکات پر بات کروں گی۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسی زبان سینئر سیاستدان کو زیب نہیں دیتی۔ جاوید ہاشمی کو اپنی بزرگی کا خیال کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے اپنی عمر 67 سال ڈکلیئر کی ہے۔ ساتھ نوازشریف کی بھی عمر 67 سال باور کرانے کی کوشش کی ہے۔ نوازشریف تو جاید ہاشمی سے دس سال چھوٹے لگتے ہیں۔ اس حساب سے جاوید ہاشمی کم و بیش اگر 77 برس کے نہیں تو 73 سال کے ضرور لگتے ہیں۔ نوازشریف کی بھی اصل عمر 73‘ 74 سال ہی ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ خود کو 74 کے بجائے ابھی 67 برس کا ڈکلیئر کریں۔ ماشاءاللہ نئے بال لگوا کر اور لندن ہاسپٹل سے سرجری کرانے کے بعد تو نوازشریف صرف 57 برس کے دکھائی دیتے ہیں اور اللہ جھوٹ نہ بلوائے شہبازشریف سے آٹھ نو سال چھوٹے لگتے ہیں۔ البتہ عمران خان واقعی ابھی 64 سال ڈیڑھ ماہ کے ہیں۔ معلوم نہیں پاکستانی مردوں کو عمروں کے معاملے میں کیوں اتنا فوبیا ہو گیا ہے۔ پہلے پاکستانی عورتوں کو عمریں کم بتانے کی بیمارری تھی اور اب اس میں مزید اضافہ ہوا ہے‘ لیکن مرد بھی اس حساس بیماری کا شکار ہو گئے ہیں۔ سیاستدان کو ایشوز پر بات کرنی چاہئے نہ کہ عمروں پر۔ عمران خان نے تو ابھی تیسری شادی کرنی ہے۔ اس لئے عمران خان اگر خود کو پچاس سال کا بھی کہہ دیں تو چلے گا‘ لیکن حیرت یہ ہے کہ 40 سال کے بعد عمروں کا مسئلہ ختم ہو جانا چاہئے۔ اس عمر تک شادی ہو جاتی ہے۔ بچے ہو جاتے ہیں۔ عورت اور مرد میچور ہو جاتے ہیں۔ جنہوں نے مزید شادیاں کرنی ہوتی ہیں‘ ان کیلئے چلو رعایت ہونی چاہئے ورنہ عمروں میں کیا رکھا ہے جو آج بیس سال کا ہے‘ اس نے بیس سال بعد 40 کا ہونا ہے اور چالیس سال بعد 80 سال کا ہوگا۔ جس کو زندگی ملتی ہے‘ وہ اگر سولہ سال کا ہے تو کل 80 برس کا ہوگا تو پھر اتنا رولا کیا ہے۔ یہی تو ہماری قوم کا پاگل پن ہے۔ اب جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ عمران خان کا دماغی معائنہ کرایا جائے۔ میں شرطیہ کہتی ہوں عمران خان کا دماغی معائنہ کرایا تو (ن) لیگ والے ڈاکٹروں سے انہیں صرف پاگل نہیں‘ مہا پاگل قرار دلوائیں گے بلکہ شینرو فرینک کا لیبل لگا دیں گے۔ جواب میں عمران خان نے بھی ترکی بہ ترکی جواب میں کہا ہے کہ جاوید ہاشمی کا دماغی توازن درست نہیں‘ الزامات جھوٹ پلس ہیں۔ اس طرح کے بیانات سے ہمارے قائدین کی سیاست کی میچورٹی اور عوامی دردمندی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر نواز‘ شہباز‘ زداری‘ الطاف‘ فضل الرحمن‘ محمود اچکزئی‘ اسفند یار ولی وغیرہ کے بیانات کا تجزیہ کیا جائے تو احساس ہوگا کہ ان سب میں سیاسی بالیدگی اور عوام کا درد ناپید ہے۔ ان سب کے بیانات کو نفسیات کی تجربہ گاہ میں رکھا جائے تو ان کے بیانات میں ابنارمیلٹی واضح نظر آئے گی۔ پاگل پن کی علامات دکھائی دیں گی۔ لیڈروں کی یہ شان نہیں ہوا کرتی۔ کسی لیڈر کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ذاتیات پر اترے اور کسی کے خانگی معاملات پر کیچڑ اچھالے۔
سیاسی طورپر سیاسی قدوقامت پر بات کی جانی چاہئے۔ عمروں اور شادیوں پر باتیں کرکے لیڈر اپنے چھوٹے پن بلکہ بونے پن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ آپ کسی کی سیاسی کمزوریوں‘ نااہلیوں اور کوتاہیوں کو ہدف تنقید بنایئے‘ سیاسی طورپر سیاسی وار کریں‘ لیکن کسی کی ذاتی زندگی اور عمر یا شادی پر بات کرنا بہت گھٹیا حرکت ہے۔ جو لوگ ایسے حملے کرتے ہیں‘ وہ سیاسی طورپر بونے ہیں۔ اس معاملے میں اعلیٰ ظرفی صرف چودھری برادران نے دکھائی ہے۔ تحریک انصاف کے میڈیا سیل والی شکایت بجا ہے۔ جاوید ہاشمی پر ضرور رکیک حملے کئے ہونگے اور دھمکیاں بھی دی ہونگی۔ عمران خان کا میڈیا سیل ایک لحاظ سے دہشت گرد ہے۔ جونہی عمران خان کی کسی غلط پر کوئی بندہ ریمارکس دیتا ہے‘ عمران خان کا میڈیا سیل گندی غلیظ باتوں کے علاوہ پُرتشدد طریقہ اختیار کرتا ہے اور دھمکیوں پر اتر آتا ہے۔ ابھی عمران خان کچھ نہیں ان کے پاس کوئی معمولی عہدہ تک پاس نہیں ‘ لیکن ان کے میڈیا سیل کی دہشت اور وحشت کا یہ عالم ہے تو پھر وزیراعظم بننے کے بعد تو یہ سچ مچ طالبان‘ داعش‘ بوکوحرام بن جائیں گے۔ دوسری طرف (ن) لیگ کا میڈیا سیل بھی کچھ کم نہیں۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کا بھی یہی حال ہے۔ جہاںتک جاوید ہاشمی کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنی چالیس سالہ سیاست سے یہی سیکھا ہے۔ تحریک انصاف جوائن کرتے وقت انہیں علم نہیں تھا کہ عمران خان کا دماغ خواب ہے یا تحریک انصاف میں عہدہ انجوائے کرتے ہوئے ضمیر کی آواز پر تحریک انصاف کوکیوں نہیں چھوڑا تھا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024