الزامات نئے نہیں نہ پہلی مرتبہ لگائے گئے ہیں ۔ ثبوت ہوں تو دے ۔ محض ہمارے مطالبہ پر ’’مودی جی‘‘ خود ہاتھوں میں کاغذوں کے پلندے اٹھائے یہ کہتے ہوئے آ کھڑے ہونگے کہ لیجئے ’’ٹھوس شواہد‘‘ ۔ ہم دہائیوں سے ٹھوس ثبوت لانے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں اور اتنی ہی مدت سے ’’وہ‘‘ الزامات لگاتا آ رہا ہے ۔ واچ لسٹ میں شامل ہوئے بھی دہائی گزر چکی تھی مگر نظر بند اب کیا گیا پھر بھی ’’ہمسائے‘‘ خوش نہیں بلکہ ’’شیر ببر‘‘ بن کر دفاعی بجٹ میں ’’10 فیصد‘‘ اضافہ ’’ 8 کھرب‘‘ سے نئے جہاز خریدے جائینگے ۔ پہلے سے انتہائوں کو چھوتے بجٹ میں کل ’’قومی آمدن‘‘ کا ’’13 فیصد‘‘ جنگی تیاریوں کیلئے مختص کرنا ۔ اب ’’امن کی شاہراہ‘‘ تعمیر کرنے واسطے تو نہیں ہوا۔’’16 امریکی ریاستوں‘‘ نے صدر ٹرمپ کیخلاف مقدمہ لڑنے کا اعلان کر دیا ۔ ایک نہیں ’’900 اہلکاروں‘‘ نے اختلافی نوٹ پر دستخط کر دیئے ۔ دنیا کی واحد سپر پاور کے ہمہ مقتدر صدر کے احکامات کی نفی بلکہ عدالتوں میں چیلنج کرنے کے واقعات معمول بات نہیں ۔ وہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے جبکہ ہم اسلامی ممالک میں آن ریکارڈ واحد ’’ایٹمی قوت‘‘ ہیں ۔ اس کے باوجود ’’72 سالہ آزمودہ دشمن‘‘ کے صرف الزامات پر اپنے شہریوں کو پابند سلاسل کر کے کیا حاصل ہوا ۔ جنگی جنون میں مزید اضافہ ۔ نہ ’’وہ‘‘ راضی ہوا اور نہ اسکے ’’قربی‘‘ خوش ہونگے ۔ بجا قومی مفاد میں ریاستی فیصلہ ہے ۔ قومی مفاد کسی بھی دور میں نظر انداز نہیں ہوا ۔ ہمیشہ ہر چیز میں قابل ترجیح رہا ۔ اب سوال امڈ رہے ہیں کہ قومی مفاد کی تشریح کر لی جائے ۔ اس ملک میں ’’بہترین قومی مفاد‘‘ کے جھنڈے تلے صرف وہی اقدامات اٹھائے گئے یا ’’شخصیات‘‘ نشانہ بنیں جو براہ راست پاکستان کے استحکام ، سلامتی کے امور سے وابستہ تھیں۔ ڈاکٹر قدیر خان سے لیکر دوسرے ممالک کو انکے یا ہمارے مطلوبہ افراد نظر بند کرنے ، حوالے کرنے تک کے حقائق کی پوشیدہ تہیں یقیناً حکومت اور با خیر ذمہ دار ادارے ہی صحیح طور پر جانتے ہیں نہ ہم کسی کے حامی ہیں نہ مخالف مگر پریشانی ، تشویش ضرور بڑھ رہی ہے کہ کھلے عام پارلیمان پر دو جگہوں پر دریدہ دینی کرنیوالے کبھی بھی گرفت میں نہیں لائے گئے ۔ ایسے لوگوں کو کیوں ٹارگٹ کیا گیا جو فلاحِ عامہ کے کاموں میں مصروف تھے ۔ عوام کی خواہش ہے کہ بے شک پکڑ لیں ، نظر بند کر دیں مگر جو سماجی بھلائی کے ادارے کام کر رہے ہیں ان کو کام کرنے سے نہ روکا جائے ۔ بند ہونے سے ہزاروں افراد بے روزگار اور لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہو جائینگے ۔ ’’کراچی‘‘ طرز پر اقدامات اٹھائے جائیں ۔ جرائم کو سیاست سے الگ کرنے کی پالیسی ۔ اس کیس میں جرائم تو نہیں البتہ؟؟
’’ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے‘‘ ۔ جنرل راحیل شریف کا بطور آرمی چیف آخری خطاب ۔ آخری سرکاری وارننگ ’’مشیر خارجہ‘‘ کا من مرضی سے دہلی کا دورہ ، جان بچا کر بھاگتے ہوئے وارننگ ہائی کمشنر کی ’’کمزوری نہ سمجھا جائے‘‘۔ یہ نہیں کہ انڈیا کو انتباہی الفاظ کی ترسیل رک گئی ۔ وزیراعظم ، آرمی چیف سے اب تازہ میڈیا بریفنگ تک سبھی امن کے خواہاں ہیں ۔ مگر ’’کمزوری نہ سمجھا جائے‘‘ کہتے کہتے اگر ہم ہمسائے کی خواہشات پوری کرنے میں مگن ہو گئے تو پھر کل کوئی بھی فرد ، ادارہ باقی نہیں بچے گا ۔ یاد رکھیں ریاست افراد کے مجموعہ کا نام ہے ۔ کسی فرد واحد کی خواہشات ، تمنائوں کی مانگ پوری کرنے کا نام نہیں ۔’’عام آدمی، عام تنظیم‘‘ تو الزام سے پہلے گرفت میں آ جاتے ہیں ۔ مگر بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ۔ چادر لپیٹنے والے پگڑ باندھے والے سبھی کو سات خون معاف ہیں ۔ استثنیٰ حاصل ہے ۔ یہاں بھی پھر وہی سوال ابھرتا ہے کہ ’’ریاست‘‘ نام کی تشریح ، دائرہ ہائے کار ، بہت دکھ ہوا جب ’’قائداعظمؒ‘‘ کے اے ڈی سی کے سپوت نے بیان دیا کہ ریاست نے فرقہ واریت کا زہر گھولا ۔ لوگ ریاست کے تحت غائب ہوتے ہیں کسی میں سوال کرنے کی ہمت نہیں ۔ یقیناً سوالات اٹھانے کا حق ہر ذی بشر کو ہے ۔ مگر یہاں پوچھنا مقصود ہے کہ ریاست سے کیا مراد ہے ؟؟ فرمان جاری کرتے ہوئے بھول تو نہیں گئے کہ اسی ریاست کے ماتحت ، زیر کفالت ادارے کے ایک متعین مدت تک کے سربراہ ہیں جبکہ ’’ریاست‘‘ نے قیامت تک سلامت رہنا ہے اسی ریاست کے ہر شہری کی طرح ہم بھی اس موقف کے حامی ہیں کہ کسی نے جرم کیا ہے تو قانونی راستہ اپنایا جائے ۔ مقدمہ چلایا جائے مگر شواہد ٹھوس ہوں ۔ جرم کو ثابت کرنیوالے ثبوت نتھی کیے جائیں ۔ ’’ثبوت ہوں تو دے‘‘ ۔ محض دھمکیوں ، دبائو ، الزام پر تو؟؟ الزام تو ’’مودی‘‘ نے یہ بھی لگایا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ ریاست پنجاب کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ تو کیا ہم ڈر کر پورے پاکستان کو نظر بند کر دینگے ۔ ان کو ہمارے کسی ایک فرد ، جماعت ، ادارے سے دشمنی نہیں ، پوری مملکت کا وجود کھٹکتا ہے ۔ بٹوارے کا غم غلط نہیں ہو رہا اور نہ ہو گا ۔ ’’ہندو‘‘ تقسیم کے دکھ کو بھولنے پر آمادہ نہیں اسلئے ’’جناب عالی‘‘ ریاست ایک ادارے کا نام نہیں پورے پاکستان کا نام ہے ۔ اس چیز کو ہم کیسے نہ کمزوری سمجھیں کہ ’’مملکتی استحکام کے ذمہ دار‘‘ غیر ذمہ دار الفاظ کی پھوار برسائیں اور پکڑ ، گرفت صرف محب وطن اشخاص کی ہو ۔ الزام لگانے والے الزام کے معیار کو بھی نہیں جانچتے ۔ ’’انڈین چیف‘‘ کا کہنا ہے کہ ’’پاکستانی فوج کی گولہ باری سے برفانی تودے گر رہے ہیں‘‘۔ حیرت ہے اس کے باوجود وہ سلامت ہیں ۔ یہ کس قسم کے تودے ہیں جو ابھی تک کوئی ایک نقصان بھی منظر عام پر نہیں لا سکے ۔ جبکہ ہمارے ہاں تو گولہ باری سینکڑوں معصوم جانوں کو نگل چکی ہے ۔ قارئین کشیدگی کی انتہا ہے ۔ ہماری طرف سے نہیں اس طرف سے ۔ اسکے باوجود ہم نے بھارت سے ’’5 سالوں‘‘ میں ’’9 ارب‘‘ مالیت کی اشیاء درآمد کر لیں جبکہ پاکستان سے صرف ’’ڈیڑھ ارب‘‘ کی اشیاء بجھوائی گئیں ۔ مشیر خارجہ سے فنونِ لطیفہ تک کو پابندیوں میں جکڑنے والے انڈیا ہماری درآمدات زیادہ ہونے پر شکوہ کناں کیوں نہیں ہوتا؟ اس پر وہ احتجاج کیوں نہیں کرتے ۔ اپنے شہروں کے باشندوں کے حقوق دبانے ، جبراً قبضہ کی پالیسی کا رد عمل برداشت کرنے کی بجائے ، مسئلہ کا ٹھوس حل نکالنے کی بجائے ان پر الزامات ، وہ بھی ثبوت کے بغیر جو حقیقتاً امن کے خواہاں ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024