کشمیر پاکستان کے بہت نزدیک ہے لیکن کشمیر کی بھارت سے آزادی کتنی دور ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جو کہا جاسکتا ہے وہ یہ کہ ناامیدی کے اس منظرنامے میں بھی بہادر اور پرعزم کشمیریوں نے بھارت سے آزادی لینے کا جھنڈا بلند کیا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں فروری کی 5تاریخ کو کشمیریوں کی تحریک آزادی کے ساتھ یکجہتی کا دن جلسے جلوسوں اور بیانات سے منایا جاتا ہے لیکن کشمیری ہرسال 5فروری کی تاریخ تک پہنچنے کیلئے بارہ مہینے اپنا بہت سا خون دیتے ہیں۔ انسانیت کے دکھوں پر موٹے موٹے آنسو بہانے والی یہ ہمدرد اور نرم دل دنیا بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیریوں کے کٹے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کوشاید دیکھ نہیں پاتی۔عالمی فیصلہ سازی کے طاقتور ٹھیکیدار یورپ اور امریکہ کی اہم شخصیات ذاتی محفلوں میں اس بات کا برملا اعتراف کرتی ہیں کہ ماڈرن دنیا میں ریاستی ظلم ڈھانے اور آزادی کی تحریک کیلئے ان گنت قربانیاں دینے کی سب سے لمبی تاریخ کشمیر میں ہی لکھی جارہی ہے لیکن انسانی حقوق کے گورے چہرے لئے یہ شخصیات جب سرکاری حیثیت میں آتی ہیں تو کشمیریوں کے بہنے والے خون کو دو ملکوں کے درمیان کا معاملہ کہہ کر چپ سادھ لیتی ہیں۔ اُن سے اس شرمناک دوہرے معیار کی وجہ دریافت کی جائے تو صرف ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ بھارت جیسے بہت زیادہ آبادی والے ملک کو ناراض کرکے مغربی ممالک کے کاروباری مفادات کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔ حالانکہ مغربی ممالک اپنے کاروباری مفادات کو نقصان پہنچائے بغیربھی ایشیاء میں مستقل امن لاسکتے ہیں۔ وہ ایسے کہ برصغیر میں ہندوستان کی ہزاروں برس پر پھیلی تاریخ بتاتی ہے کہ اس خطے میںشروع سے ہی چھوٹی بڑی کئی ریاستیں قائم تھیں جو اپنے اپنے راجائوں کے زیر انتظام تھیں۔ مسلمان حکمرانوں نے برصغیر میں پھیلی اِن چھوٹی بڑی ریاستوں کو ایک ملک بنایا ۔ مسلمان حکمرانوں کی شاید یہ ایک بڑی غلطی تھی کیونکہ ہندوئوں نے 1947ء میں برصغیر سے انگریزوں کے جانے کے بعد پورے ہندوستان پر قبضہ کرنا چاہا اور اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگایا۔ اپنے آپکو دنیا کے بہترین سکالر اور تاریخ دان کہنے والے ہندو پروفیسروں میں سے کوئی بھی یہ بتا سکتا ہے کہ مسلمانوں اور انگریزوں کی حکومت سے پہلے ہندوستان کب اکھنڈ بھارت تھا؟ ہندوئوں کی مذہبی کتاب مہابھارت میں بھی ہندو بھائیوں اور کزنوں کی آپس کی لڑائیوں کا ہی ذکر ہے۔ ہندوئوں کی اس مذہبی کتاب میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ایک دوسرے کی ریاستوں پر قبضے کیلئے خونی رشتے کیسے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے لیکن ہندوستان نے 1947ء کے بعد دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک دی اور تاریخ کے وہ صفحات غائب کردیئے جن میں ہندوستان کی سرزمین کئی ریاستوں پر مبنی تھی۔ طاقتور ممالک اب بھی ہندوستان کی تاریخ کی اُس کتاب کو پڑھ کر ایشیاء میں امن لاسکتے ہیں اور اپنے کاروباری مفادات بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ اگر بے ڈھنگے اور بے ہنگم پھیلے ہندوستان کو اُسکی نسلی آبادی کے حساب سے پہلے کی طرح تاریخی اعتبار سے چھوٹی بڑی ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے تو جارحانہ پالیسی، دوسروں پر قبضہ کرنے اور خون بہانے والے ہندوستان کے مرکزی تخت سے جان چھوٹ جائیگی۔ دوسرا یہ کہ چھوٹی بڑی نئی ریاستوں سے مغربی ممالک کو کاروباری معاملات طے کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔ یہ مجوزہ ریاستیںافغانستان ، پاکستان ،نیپال اور کئی یورپی ممالک کے سائز کے برابر یا اُن سے بڑی ہوں گی۔ موجودہ بھارت جہاں اپنے ہمسایوں کیلئے ایک اذیت ناک ہمسایہ ہے وہیں اپنی آبادی میں مختلف نسلوں اور قومیتوں کیلئے بھی ایک عذابِ عظیم ہے۔ نچلی ذات کے ہندو، تامل، سکھ، مسلمان، عیسائی، بنگالی، میزورام، ناگا لینڈ، آسام، تری پورہ اور کشمیری وغیرہ ایسی قومیتیں ہیں جو گزشتہ 70 برس سے ہندوستان کے خودغرض حکمرانوں کے فلسفہ اکھنڈ بھارت کی آگ میں جھلس رہی ہیں۔ اگر بین الاقوامی اداروں کے تحت ہندوستان میں اکھنڈ بھارت کے نظریئے پر ریفرنڈم کرایا جائے تو موجودہ تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت اور سب سے بڑا ظلم واضح ہو جائیگا۔ حقیقت یہ کہ ہندوستان کی مذکورہ قومیں اکھنڈ بھارت کی بجائے اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں قائم کرنا چاہیں گی اور ظلم یہ کہ اکھنڈ بھارت کے نظریئے کے مختصر حمایتی ٹولے نے ہندوستان کی 80فیصد سے زائد آبادی کو اُسکی مرضی کیخلاف اپنے پنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ اکھنڈ بھارت کے اِن خون آلود صفحات میں سب سے زیادہ لرزہ خیز باب کشمیر کا ہے۔ اصل حقیقت جاننے والے جانتے ہیںکہ کشمیر پر بھارتی قبضے کا سہرا نہرو کے سر نہیں جاتا بلکہ قابض بھارتی فوجیوں اور ظالم بھارتی حکمرانوں کو اس سلسلے میں نہرو کی بیوی کا شکر گزار ہونا چاہئے کیونکہ نہرو کی بیوی کے ساتھ خصوصی تعلقات کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہی مائونٹ بیٹن نے کشمیر کی گردن پر چھری رکھی۔ ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ پہلے جنم میں اچھی شکلوں سے ظاہر ہوتے ہیں جبکہ پہلے جنم میں برے کام کرنیوالے مرنے کے بعد دوسرے جنم میں بری شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ہندوئوں کے اس عقیدے کے تحت دلی کی گلیوں میں بیمار اور خارش زدہ کتے کی جو سسکیاں سنائی دیتی ہیں وہ یقینا مائونٹ بیٹن کی ہی ہوں گی اور اگر مائونٹ بیٹن کایہ دوسرا جنم تھا تو اُسکے پہلے جنم کی بدبختیوں کی سزا کشمیریوں کو کیوں ملی؟ جذبات کو چھوڑ کر منطق کی بات کریں تو دنیا بھر میں خفیہ دستاویزات کو اوپن کرنے کا رواج بڑھ رہا ہے۔ یہ جدید دنیا کا جمہوری عقیدہ اور شعوری حق بھی ہے۔ اس جمہوری اور شعوری حق کا تقاضہ ہے کہ 1947ء اور اُسکے بعد کشمیر کو تقسیم کرنے اور اُس پر قبضہ کرنے کیلئے نہرو اور دوسرے ہندوستانی حکمرانوں کے درمیان جو خط و کتابت یا میٹنگز ہوئیں اور ان ہندوستانی حکمرانوں کی بعض دوسرے ممالک سے جو خفیہ خط و کتابت اور میٹنگز ہوئیں انہیں دنیا کے سامنے اوپن کیا جائے تاکہ جمہوری ہندوستان کا اصل چڑیل چہرہ سب کے سامنے آسکے۔ اس ریفرنڈم سے یہ ضرور پتہ چل جائیگا کہ اکھنڈ بھارت ایک امپائر کی بجائے انسانوں کا خون پینے والاایک ویمپائر ہے۔ پاکستان کے 20 کروڑ لوگ کشمیریوں کے ساتھ جیتے ہیں لیکن اکھنڈ بھارت کا خونخوار نظریہ انہیں جینے نہیںدے رہا۔لہذا دنیا کے امن کیلئے ضروری ہے کہ اکھنڈ بھارت کے نظریے کی جگہ موجودہ بھارت میں مختلف قومیتوں کی تاریخی فطری ریاستیں قائم ہوں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024