سبزی فروٹ منڈی میں سڑاند اور بدبُو سے اَٹے کچرے کے ڈھیر پر روزی تلاش کرتے ننھے پری زادوں کا غول۔ خوبصورت لب و رخسار اور شاہکار خدوخال پر گلے سڑے پھلوں کے رس میں گُھلی میل کچیل کے بے مہابا داغ اور ان داغوں کو چاٹتی افلاس زدہ معصوم زبانیں، نہ خودی نہ انا نہ شرف انسانی کا کوئی شائبہ، نہ غم دوراں کا کوئی بوجھ نہ ماتھے پر ناگواری کی کوئی شکن نہ منہ میں حالات کا کوئی گلہ، ہنستے مسکراتے کھیلتے اپنی لو اور رو میں مگن، گندگی میں لتھڑے روبوٹ کی سی پُھرتی اور تندہی سے ڈھیر میں ٹٹولتے ننھے منے ہاتھ جن کی لکیریں میل کی تہوں میں دب گئی تھیں۔ ایک ہی تمنا ایک ہی کوشش کہ کوئی نیم گلا سڑا کم داغی سیب، انار، آڑو، کدو، کریلا یا بینگن مل جائے۔ ایک چھوٹی سی گڑیا نے متعفن انار میں سے چند چمکتے دانے کرید کر اپنے منہ میں ڈالے توگویا میرے سر پر ہتھوڑا چل گیا، سر گھوم گیا، قریب تھا کہ چیخ نکلی جاتی۔ کرب، آہ، سسکی کا کشتہ آنسوئوں کی قطار …؎
سنبھالے آنکھوں نے آنسو بساط سے بڑھ کے
درِ قفس پہ اسیروں کا اژدہام رہا
ایسے ہی بے ساختہ آنسو ان گنہگار آنکھوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے چہرے پر مانند چشمہ رواں دیکھے تھے۔ مرحوم نے ایک بار دورانِ خطاب کسی ایسے ہی سین کے ذکر میں سے مغلوب ہو کر اپنا گریبان پھاڑ دیا تھا اور ننگے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تھا ’’دیکھو غریبو، نادارو اور افلاس کی چکی میں پسنے والے مزدورو! میرے اس سینے میں تمہارا ہی دکھ درد بھرا ہے‘‘ اُن کی یہ ادا لوگوں کو بھا گئی تھی اور وہی ادا آج تک اُن کی راہ تکنے پر مجبور کئے ہوئے ہے۔ چند روز قبل آصف علی زرداری ٹی وی پر سیاسی خلال فرما رہے تھے۔ لباس فاخرہ میں ملبوس بھٹو کے یادگار آنسوئوں کے وارث اُن کے داماد کے چہرے پر مستقل مسکراہٹ، آنکھوں میں ڈالرانہ چمک اور قانونی نفس مطمنہ کی جھلک تو عیاں تھی مگر باتوں میں سے ہوس کی کھلم کھلا بُو بھی آ رہی تھی۔ بھئی گھر کے سارے برتن بھر چکے، اڑوس پڑوس دساور تک سب الماریاں، تہہ خانے اور بنک خزانوں سے معمور ہو چکے اب بھی اشتہا اور لالچ مستور نہیں، نیت پر پردہ نقاب برقعہ کچھ بھی کارگر نہیں، کیا خود اپنا پول کھولنا بہت ضروری ہے شاید ابھی انتقام بذریعہ جمہوریت کا شوق پورا نہیں ہوا۔ کولہو کے بیل کی طرح لاکھوں میل کا سفر ایک ہی نکتے کے گرد، افہام و تفہیم، مُک مکا، دھوکا، دغا، فریب، مٹی پائو۔ فرماتے ہیں الیکشن میں بے شک دھاندئی ہوئی مگر لازم ہے کہ حکومت مدت پوری کرے۔ گویا فرما رہے ہیں کہ دھاندلی اور جعلسازی اپنی مدت پورے۔ واہ کیا کہنے منطق کے۔ کہتے ہیں آئین اور پارلیمنٹ مقدس ہے بقول شاعر …؎
واویلائے توہین محبت کے عقب میں
تقدیس کے چھپر تلے اک گائے بندھی ہے
کہتے ہیں دیکھئے اگر مقدس آب گینہ جمہوریت کو ٹھیس لگ گئی تو بھونچال آ جائے گا۔ اے میرے عوام شور مت کرو، اچھے بچوں کی طرح رہو۔ ایک طرف یہ بھاشن دوسری جانب پسر جواں سال کُھلا معافی نامہ جاری کرتا ہے، بھٹو کے جیالو ناراض کارکنو! ا ے میری ناراض قوم ہمیں معاف کر دو۔نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔ یہ منافقت کھلا تضاد اور ڈرامہ شاید یہ لوگ ابھی تک ستّر اسّی کی دہائیوں میں رہ رہے ہیں۔ ایک طرف سٹیٹس کو کی حمایت دوسری جانب توبہ اور اعترافِ گناہ۔ نہ تیتر نہ بٹیر، نہ ہنس کی چال نہ کوّے کی۔ پارلیمنٹ میں کیا کہا اب عوام کے روبرو کیا فرما رہے ہیں۔ لگتا ہے پیپلز پارٹی کی کشتی میں عوام دشمنی کا بوجھ کچھ زیادہ ہی لد گیا اور جب یہ کشتی ڈوبنے کے لئے ہچکولے کھانے لگی تو معافی معافی کا ورد شروع ہو گیا۔
ایسے میں بھٹو کی روح پکار پکار کر کہہ رہی ہے ’’وصیت کے مشکوک پروانے کی پیداوار نے میری قوم کو جمہوریت کے نام پر جو مسلسل اذیت دے رکھی ہے اس کے سبب جنت میں میرا سکون برباد ہو چکا ہے۔ میں نے پرانے نوشتہ آئین میں ابتدائی چالیس شقیں تو صرف اپنے عوام کی حفاظت اور خدمت کے لئے وقف کی تھیں لیکن ان وصیت زداوں نے اشرافیہ سے گٹھ جوڑ کر کے آئین کا یہ حصہ اپنے اقتدار کے دوام کے لئے محبوس کر لیا۔ کوئی ہے جو میری آواز سُنے، کوئی ہے ارے کوئی ہے! جو اس ناپاک گٹھ جوڑ اور مُک مکا کو توڑ کر میری آبرو رکھ لے؟ کچرے کے ڈھیر پر بیٹھی گڑیا نے اپنے بھائی سے کہا۔ بھائی جان! میرا تھیلا بوجھل ہو گیا اس میں سے کچھ بوجھ نکال دو تاکہ میں آسانی سے اُٹھا سکوں۔ ٹی وی پر بیٹھا آدمی کہہ رہا ہے اور لائو، اور لائو! ہل من مزید! ہل من مزید!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38