عمران خان اپنے جلسوں میں حکومت‘ حکمرانوں اور کل تک کے ساتھی پارلیمنٹیرین کے بارے میں جو تفصیلات بیان کرتے ہیں اور بار بار بیان کرتے ہیں اس سے انکے حامی مزید کمٹڈ ہو جاتے ہیں۔ پی پی پی سے مایوس نیم جیالوں میں سے اس کی حمایت سے تائب ہوکر کوئی ن لیگ کا سپورٹر بنا اور کسی کو عمران خان کے اندر بھٹو نظر آ گیا۔ کچھ لوگ کسی پارٹی کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتے وہ آخری دنوں میں ووٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کو معلق رائے کے حامل افراد کہا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگ عمران خان کے الزامات کو حقیقت سمجھ کر نواز لیگ کیخلاف اپنی رائے پختہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ عمران خان کے الزامات کاپوائنٹ ٹو پوائنٹ جواب نواز لیگ کے ذمہ داروں کی طرف سے نہیں آ رہا۔ عمران لیگی قیادت پر الیکشن میں بدترین دھاندلی، اقربا پروری، میگا کرپشن، اثاثے اور ٹیکس چھپانے کا الزام لگاتے ہیں۔ اس کے جواب میں پارلیمنٹ میں شیرو کی کہانی سُنا دی جاتی ہے، عمران کو الزام خان اور بہتان خان کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے کمٹڈ لوگ تو کسی بھی صورت اپنے قائدین کا ساتھ نہیں چھوڑتے البتہ سپورٹرز پھسل رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کا عمران خان کی طرف جھکائو ہو رہا ہے تاہم ایسے بھی ہیں جو عمران خان اور طاہر القادری کے اشتعال انگیز خطابات اور بیانات پر مسلم لیگ ن کے ساتھ کمٹڈ ہو گئے۔ گویا آج معلق رائے شاذ شاذ اور خال خال ہی نظر آ رہی ہے۔ کل تک جس رائے کا انتخابات میں کمال ہوا کرتا تھا اب اسے زوال آ گیا ہے۔ عوام میں ایک واضح سیاسی تقسیم نظر آتی ہے۔ جو اِدھر نہیں وہ اُدھر ہے۔ عمران خان کے کراچی اور لاہور میں جلسے کل تک معلق رائے رکھنے والوں کے دم قدم سے کامیاب ہوئے ہیں جو آج عمران خان کے سپورٹر بن چکے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے ساتھ کمٹڈ لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
آج پی پی پی کے دور کے مقابلے میں کچھ شعبوں میں بہتری ضرور آئی جبکہ کچھ کی حالت مزید بگڑ گئی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ میں قدرے کمی ہوئی اور مینجمنٹ بھی بہتر ہوئی۔ ایک گھنٹہ بجلی بند ہوتی ہے تو اگلے گھنٹے آنے کا تقریباً یقین ہوتا ہے تاہم گیس کی بُری حالت ہے۔ شدید گرمی میں بھی گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، سی این جی سٹیشن جب دل میں آتا ہے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری، ہر شعبے میں رشوت ستانی، ڈکیتی، قتل اور آبروریزی کی وارداتیںعام آدمی کیلئے پریشان کُن ہیں۔ اس صورتحال کو عمران خان کیش کرا رہے ہیں۔ انہوں نے طاہر القادری کیساتھ مل کر گو نواز گو کے نعرے کو ایک تحریک بنا دیا ہے۔ گو نواز گو کا نعرہ زیادہ ہی چل گیا ہے۔ حکومتوں کی مخالفت پہلے بھی ہوتی رہی، ان کیخلاف تحریکیں بھی چلتی رہیں لیکن نعرے یہی ہوتے تھے زندہ باد‘ مردہ باد‘ تمہارا لیڈر ٹھاہ‘ ہمارا واہ ۔۔۔ گو گو کا نعرہ بے نظیر بھٹو نے اپنی حکومت کے خاتمے پر صدر اسحٰق خان کیخلاف گو بابا گو کہہ کر لگایا تھا۔ گو گو کے نعرے کو مسلم لیگ ن نے مقبول بنایا۔ مشرف کے نیم جمہوری دور میں یہ نعرہ زبان زد عام تھا ’’مک گیا تیرا شو مشرف‘ گو مشرف گو مشرف ‘‘۔ نواز لیگ نے گو زراری کی تحریک بھی چلائی۔ آج عمران خان اور طاہر القادری گو نواز گو کا پرچارکر رہے ہیں۔ یہ نعرہ یا سلوگن ایسا زبان زد عام ہوا کہ مسلم لیگ ن کے جلسوں میں اس کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ صابر شاہ پشاور جلسے میں اور گلگت بلتستان اسمبلی میں نواز لیگ کے ارکان یہ سلوگن گاتے رہے۔ جب روٹی کی ایک سائیڈ گیس بند ہونے سے کچی رہ جائے، چائے کو اُبال نہ آ سکے تو خاتون خانہ کے اسکے ذمہ داروں کیخلاف جذبات کیوں نہیں اُبلیں گے! خاتون خانہ کو خواہ مریم اور کلثوم سے جتنا بھی پیار ہو اگر وہ اپنے مسائل کا ذمہ دار وزیراعظم کو سمجھتی ہے تو وہ بھی سرگوشی کے سے انداز میں ہی سہی گو نواز گو کہہ دیتی ہے۔ ایک مسلم لیگی دوست سی این جی اسٹیشن گیا ڈیڑھ گھنٹے بعد اسکی باری آنیوالی تھی تو بجلی چلی گئی۔ ایک گھنٹے بعد لائٹ آنی تھی اس سے دس منٹ پہلے گیس والوں نے آ کر عملے کو یہ کہہ کر سٹیشن بند کرنے کی ہدایت کی کہ گیس فیلڈ کی مرمت ہو رہی ہے۔ متوالہ حبس کے باعث پسینے میں شرابور تھا، پچھلی گاڑی میں میرا بھی یہی حال تھا۔ میں نے اسے کہا اب کہو نواز شریف زندہ باد تو وہ تھوڑا مسکرایا اور شاید مروتاً ہی کہہ دیا گو نواز گو۔ دفتر کے ایک دوست نے آتے ہی کہا ’’لو بھئی! اب تو کلثوم نواز نے بھی کہہ دیا ہے گو نواز گو۔‘‘ اس پر سب ششدر ہوئے۔ دو تین نے یک زبان ہوکر ’’کب؟ تو اس نے وضاحت کی کہ میاں صاحب نے صبح صبح دورے پر جانا تھا، وہ تیار ہوئے اور گھر سے نکلتے ہوئے کہا ’’کلثوم میں دورے پر جا رہا ہوں‘‘ اس پر کلثوم نواز نے کہا ’’گو نواز گو‘‘ اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
اُلجھنے یا ناانصافی پر تو کوئی بھی گو نواز گو کہہ سکتا ہے۔ پرویز رشید پی ٹی آئی کے کارکنوں کے سامنے آئے تو گو نواز گو کا نعرہ لگ گیا۔ امداد نہ ملنے پر سیلاب متاثرین بھی گو نواز گو کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن گریجوایٹ ارکان تو ایک دوسرے کے گلے پڑ گئے۔ ایک گریجوایٹ زخمی بھی ہو گیا۔ سرزمین خان کیلئے یہ زخم نشانِ امتیاز ثابت ہو گا اور وہ اپنی قیادت کی آنکھ کا تارا بن جائینگے۔ ڈاکٹروں کی حلف برداری تقریب میں ایک ڈاکٹر کی طرف سے پی ٹی آئی کا بینر لہرانے اور نعرے لگانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ یہ تقریب کو سبوتاژ کرنے کی کوشش تھی۔ گو نواز گو کے سلوگن نے حکمران پارٹی کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ جواب میں نو عمران نو کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ہر اس تقریب جس میں وزیراعظم‘ وزیر اعلیٰ اور وزراء نے شرکت کرنا ہوتی ہے گو گو کے نعروں کا خوف رہتا ہے۔ اس نعرے نے وزیراعظم کا اقوام متحدہ تک پیچھا کیا۔
وزیراعظم نیویارک میں روایتاً پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہیں اس مرتبہ وہ بھی نہ کر سکے۔ اگر کرتے تو شاید وہی حال ہوتا جو جنرل مشرف کا 2003ء میں صدارتی خطاب کے دوران ہوا اور اسکے بعد انہوں نے اگلے چار سال تک پارلیمنٹ میں خطاب کرنے سے توبہ کر لی۔ وہ اسی سبب اسمبلی کو غیر مہذب کہتے تھے۔
وزیراعظم کے جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر ڈیڑھ دو ہزار لوگوں نے بینر اٹھا کر مظاہرہ کیا۔ گو گو کے نعرے لگائے۔ اس اقدام کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔ نواز شریف وہاں پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے گئے۔ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا نہیں۔ اس کا فیصلہ ہونا ہے۔ اگر دھاندلی ثابت ہو جاتی ہے اور اسکے باوجود میاں نواز شریف اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں تو دنیا میں ہر جگہ آپ مظاہرے کریں۔ آپکے پاس بے شک دھاندلی کے مستند ثبوت ہی کیوں نہ ہوں ان کو ثابت کرنے تک کم از کم عالمی اداروں کے سامنے مظاہروں اور نعرے بازی سے گریز ہونا چاہیے۔ اب یہ نعرہ ملک اور قوم میں فساد کی وجہ بن رہا ہے۔ مسلم لیگ ن والے اس کا جواب دے رہے ہیں۔ اس سے معاملہ مزید بگڑے گا اور صورتحال خانہ جنگی کی طرف جا سکتی ہے۔ اس سے بچنے کیلئے حکومت کو ہی کچھ کرنا ہو گا۔ آخر ان کے گلو میں تبدیلی آ گئی، وہ عل عدالت میں تسبیح تھامے لوگوں کے استقبال کا بڑے انکساری سے جواب دے رہا تھا۔ ایسی تبدیلی حکمران بھی ایسے اندر لے آئیں تو الجھے معاملات سلجھ سکتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38